پاکستانی طالبان نے ملا فضل اللہ کا جانشین نامزد کر دیا

فائل

انتہاپسند پاکستانی طالبان نے باضابطہ طور پر تصدیق کی ہے کہ گذشتہ ہفتے مشرقی افغانستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملے میں اُس کا سربراہ ہلاک ہوگیا ہے، جب کہ اُنھوں نے اُس کے جانشین کا اعلان کیا ہے۔

ہلاک ہونے والا شدت پسند لیڈر، ملا فضل اللہ اور اُن کے چار کلیدی کمانڈر 13 جون کو افغانستان کے سرحدی صوبے کُنڑ میں ایک گاڑی میں سفر کر رہے تھے جب بغیر پائلٹ کے طیارے، یا ڈرون سے میزائل فائر کیے گئے، جس نے نصب شب اُنھیں نشانہ بنایا۔

ہفتے کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں، شدت پسند تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، جسے پاکستانی طالبان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کہا ہے کہ اُس کی قیادتی شوریٰ نے مفتی نور ولی محسود کو گروپ کا سربراہ نامزد کیا ہے جب کہ مفتی مزاہم کو اُن کا معاون مقرر کیا ہے۔

شدت پسند گروپ نے قتل ہونے والے فضل اللہ کی ٹی ٹی پی کے لیے دی جانے والی خدمات کو سراہا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ وہ ''پاکستان اور افغانستان میں امریکہ کے غلاموں کے لیے درد سر بن چکے تھے''۔

دو دِن بعد امریکہ نے ڈرون حملے کی تصدیق کی تھی جب کہ افغان صدر اشرف غنی نے ہمسایہ پاکستان کے راہنمائوں کو مطلع کیا تھا کہ اُنھیں مطلوب شخص ٹھکانے لگا دیا گیا ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ نے گذشتہ جمعرات کو شدت پسند سرغنے کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی، جسے ترجمان نے ''دشت گردی کے خلاف لڑائی کے ضمن میں ایک اہم قدم'' قرار دیا تھا۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے راہنمائوں نے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے، جہاں وہ اپنے محفوظ ٹھکانوں سے پاکستان کے خلاف دہشت گرد حملے کرتے ہیں۔

پاکستان الزام لگاتا ہے کہ گذشتہ ایک دہائی سےٹی ٹی پی خودکش اور دہشت گرد حملوں میں ملوث ہے، جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں سکیورٹی افواج بھی شامل ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ نے فضل اللہ کے سر کی قیمت 50 لاکھ ڈالر مقرر کر رکھی تھی، اُن پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ متعدد اہم امریکی اور پاکستانی اہداف کے خلاف حملوں میں ملوث تھا، جب سے 2013ء میں اُسے گروپ کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔

امریکی اور پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ گروپ دسمبر 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے میں ملوث تھا، جس میں 151 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 130 بچے شامل تھے۔