'یومِ غضب' منانے والے فلسطینی مظاہرین کی اسرائیلی فوجیوں سے جھڑپیں

فلسطین میں مظاہرین اس اعلان پر احتجاج کر رہے تھے کہ امریکہ اب اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ اسرائیلی بستیاں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔

مغربی کنارے کے شہر رملہ میں تقریباً 2000 فلسطینی اکٹھے ہوئے جہاں انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تصویری پوسٹروں کے علاوہ اسرائیلی اور امریکی جھنڈے بھی نذر آتش کیے۔

مظاہرین نے پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا کہ ’’ٹرمپ کا مواخذہ ہو رہا ہے (اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن) نیتن یاہو جیل جا رہے ہیں، قبضہ ختم ہوگا اور ہم اپنی سرزمین پر ہی رہیں گے۔‘‘

اس دوران اسکول، یونیورسٹیاں اور سرکاری دفاتر بند کر دیے گئے تھے جب کہ مغربی کنارے کے دیگر شہروں میں بھی ریلیاں نکالی گئیں۔

’یوم غضب‘ کا انعقاد فتح تحریک نے کیا تھا، جس میں گزشتہ ہفتے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اسرائیلی بستیوں کے معاملے پر سامنے آنے والے بیان پر احتجاج کیا گیا۔

ٹرمپ انتظامیہ کے حالیہ فیصلے میں چار عشروں سے جاری امریکی پالیسی تبدیل کر دی گئی ہے اور اس میں فلسطین کی جانب سے ریاست کے حصول کی جگہ اسرائیلی مؤقف کو درست قرار دیا گیا ہے۔

ادھر، اسرائیلی رہنماؤں نے اس امریکی فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ بستیوں کے مستقبل کا معاملہ مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ اسرائیل نے 1967ء کی مشرق وسطیٰ کی لڑائی کے دوران مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا۔ جس کے فوری بعد اسرائیل نے نئے حاصل کردہ علاقے پر بستیاں تعمیر کرنا شروع کر دی تھیں۔ ان دو علاقوں میں اب تقریباً 700000 اسرائیلی مقیم ہیں۔

رملہ کے قریب بیت اللحم اور الخلیل پر قائم فوجی چوکیوں پر احتجاج کرنے والوں نے اسرائیلی افواج پر پتھر پھینکے، جس کا جواب آنسو گیس کے گولوں سے دیا گیا۔

منگل کو ہونے والے مظاہروں میں متعدد افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ تاہم فلسطین میں کام کرنے والے ریڈ کریسنٹ نے کہا ہے کہ مظاہرین کو معمولی زخم آئے ہیں۔