فلسطین میں صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کے خلاف احتجاج

صدر ٹرمپ کے مجوزہ امن معاہدے کے تحت غیر منقسم یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت ہو گا اور ابو دیس فلسطین کا دارالخلافہ کہلائے گا۔ امن منصوبے کے تحت اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو سرحد کا درجہ حاصل ہو گا۔

اسرائیل اور فلسطین دونوں ہی یروشلم کے دعوے دار ہیں۔ منصوبے کے تحت کسی بھی اسرائیلی یا فلسطینی کو اُس کے گھر سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔ لہذٰا 1967 کے بعد فلسطینی علاقوں میں قائم کی گئی یہودی بستیاں جنہیں اقوامِ متحدہ غیر قانونی قرار دیتی ہے۔ امریکہ نے اسے باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے۔

بدھ کو مغربی کنارے کی مختلف بستیوں اور علاقوں میں فلسطینی شہریوں نے صدر ٹرمپ کے منصوبے کے خلاف مظاہرے کیے۔ احتجاجی مظاہرین نے ٹائر اور امریکہ کے پرچم بھی جلائے۔

اسرائیل کی سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر آنسو گیس کے شیل فائر کیے۔ ایک شخص آنسو گیس کا شیل اٹھا کر واپس اسرائیلی فوجیوں کی طرف پھینکنے کی کوشش رہا ہے۔

غزہ کے علاقے میں احتجاج کرنے والے فلسطینی شہری سڑک پر ٹائر جلا کر نعرے بازی کر رہے ہیں۔

ٹائروں سے اٹھنے والے دھویں سے قطع نظر احتجاجی مظاہرین فلسطین کے پرچم اٹھائے نعرے بازی میں مشغول ہیں۔

اسرائیل کے زیرِ قبضہ علاقے ہبرون میں ایک شخص امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے منصوبے کے اعلان کے دوران ٹی وی پر چلنے والی ان کی تصویر پر جوتا مار رہا ہے۔

مظاہروں کے دوران اسرائیل کا ایک فوجی فلسطین کے پرچم کو لات مار رہا ہے۔

یاد رہے کہ انیسویں صدی تک فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی پانچ فی صد کے لگ بھگ تھی۔ فلسطین کا دارالحکومت بیت المقدس تھا۔ بیت المقدس کو اسرائیلی یروشلم کہتے ہیں اور یہ مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں تینوں مذاہب کے ماننے والوں کے لیے مقدس شہر سمجھا جاتا ہے۔

غزہ کی پٹی پر اثر رکھنے والی فلسطینی تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ بھی وقتاً فوقتاً جاری رہتا ہے۔ اسرائیل کے لبنان سمیت خطے کے مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات بھی کشیدہ ہیں۔

تاہم اسرائیل نے مختلف عرب ممالک بشمول مصر کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کیے ہیں۔ 1967 کی جنگ کے بعد اسرائیل کی جانب سے مشرقی یروشلم اور غرب اُردن میں یہودی بستیوں کے قیام کو امریکہ پہلے غیر قانونی سمجھتا تھا۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ اب ان اقدامات کو غیر قانونی تصور نہیں کرتی۔

فلسطینی انتظامیہ کا یہ مؤقف رہا ہے کہ اسرائیل کو ان علاقوں سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ کیوں کہ اس کے بغیر دو ریاستی حل قابل عمل نہیں ہو سکتا۔