رسائی کے لنکس

اسرائیل، فلسطین تنازع اور ٹرمپ کا امن منصوبہ؟


فلسطین کا مؤقف رہا ہے کہ اُن کے لیے کوئی بھی ایسا حل ناقابلِ قبول ہے جس میں مشرقی یروشلم ان کے ملک کا حصہ نہیں ہو گا۔ (فائل فوٹو)
فلسطین کا مؤقف رہا ہے کہ اُن کے لیے کوئی بھی ایسا حل ناقابلِ قبول ہے جس میں مشرقی یروشلم ان کے ملک کا حصہ نہیں ہو گا۔ (فائل فوٹو)

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل، فسلطین تنازع کا دو ریاستی حل پیش کر دیا ہے۔ اسرائیل نے اس منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے جب کہ فلسطین نے اسے یکسر مسترد کر دیا ہے۔

صدر ٹرمپ نے منگل کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیا مین نیتن یاہو کے ہمراہ منصوبے کا اعلان کیا اور اسے ایک تاریخی موقع قرار دیا۔

اس منصوبے پر صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے انتہائی رازداری سے کام کیا تھا۔ البتہ اس کے کچھ خدوحال سامنے آنے پر ہی فلسطین نے اسے مسترد کر دیا تھا۔

صدر ٹرمپ کا امن منصوبہ ہے کیا؟

صدر ٹرمپ کے مجوزہ امن معاہدے کے تحت غیر منقسم یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت ہو گا اور ابو دیس فلسطین کا دارالخلافہ کہلائے گا۔ امن منصوبے کے تحت اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو سرحد کا درجہ حاصل ہو گا۔

خیال رہے کہ اسرائیل اور فلسطین دونوں ہی اس شہر کے دعوے دار ہیں۔ منصوبے کے تحت کسی بھی اسرائیلی یا فلسطینی کو اُس کے گھر سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔ لہذٰا 1967 کے بعد فلسطینی علاقوں میں قائم کی گئی یہودی بستیاں جنہیں اقوامِ متحدہ غیر قانونی قرار دیتی ہے۔ امریکہ نے اسے باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے۔

فلسطینی حکام کا مؤقف ہے کہ اس منصوبے کے ذریعے اسرائیل کو خطے میں اپنی حاکمیت قائم کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔

اسرائیل، فلسطین تنازع

انیسویں صدی تک فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی پانچ فی صد کے لگ بھگ تھی۔ فلسطین کا دارالحکومت بیت المقدس تھا۔ بیت المقدس کو اسرائیلی یروشلم کہتے ہیں اور یہ مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں تینوں مذاہب کے ماننے والوں کے لیے مقدس شہر سمجھا جاتا ہے۔

یہودیوں کے نزدیک فلسطین اور اس سے ملحقہ علاقے مذہبی حوالوں سے اُن کے لیے نہایت اہم ہیں۔ جس کی نشانیاں اُن کے نزدیک مقدس کتاب میں بھی ملتی ہیں۔

خطے کے عربوں اور یہاں آباد یہودیوں کے درمیان چپقلش کا آغاز 1917 میں ہوا تھا۔ اُس وقت فلسطین خلافتِ عثمانیہ کا حصہ تھا۔ اس دوران برطانوی حکام نے اعلان کیا تھا کہ فلسطین یہودیوں کا مستقل ٹھکانہ ہو گا۔

بعدازاں پہلی جنگ عظیم اور خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد 'لیگ آف نیشن' نے فلسطین کا کنٹرول برطانیہ کو دے دیا تھا۔ 'لیگ آف نیشن' کا قیام پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر جنوری 1920 میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اقوامِ متحدہ کے قیام سے قبل دُنیا کے مختلف ممالک کی اس تنظیم کا مقصد، عالمی امن کو برقرار رکھنا تھا۔

'لیگ آف نیشن' کی جانب سے دیے گئے مینڈیٹ کے تحت 1945 میں برطانیہ نے فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی جسے اسرائیل کا نام دیا گیا۔

اسی دوران اسرائیل فورسز اور فلسطینی ملیشیاز کے درمیان جھڑپوں کا بھی آغاز ہوا۔ 1948 میں باضابطہ طور پر اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا اور اسی برس اسرائیل کا فلسطین کے ہمسائیہ ممالک سے جھڑپوں کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔

برطانیہ نے فلسطین سے متعلق شہریوں کے خلاف کارروائی، غیر معینہ مدت تک انہیں قید میں رکھنے، آبادیوں کو گرانے، فوجی عدالتوں کے قیام اور فوجی چھاؤنیوں کے قیام کی بھی منظوری دی تھی۔

ماہرین کے مطابق انہی قوانین کا سہارا لے کر 1967 کی عرب، اسرائیل جنگ کے بعد فلسطینیوں کے خلاف کارروائی کی جاتی رہی۔

1949 میں اسرائیلی فوج نے فلسطینی ملیشیاز کو شکست دی تو لگ بھگ سات لاکھ فلسطینی شہری بے گھر ہو گئے اور متعدد دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔

اسرائیلی فوج نے واپس آنے کی کوشش کرنے والوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے اور دُنیا کے کسی بھی ملک میں پیدا ہونے والے یہودی کو اسرائیل میں آنے کی اجازت دے دی اور اُنہیں یہودی ریاست کا شہری بننے کی پیش کش کی گئی۔

عرب اسرائیل جنگ (1967)

چھ روز تک جاری رہنے والی اس جنگ میں مصر، شام اور اُردن نے اسرائیل کا مقابلہ کیا۔ اس جنگ کے دوران اسرائیل نے مشرقی یروشلم، غربِ اُردن، غزہ اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔

پانچ ماہ بعد اقوامِ متحدہ نے قرارداد نمبر 242 کے ذریعے اسرائیل کو یہ علاقے خالی کرنے کا کہا۔ لیکن اس سے قبل ہی اسرائیل نے غربِ اُردن میں یہودی بستوں کی تعمیر شروع کر دی تھی۔

عالمی قوانین کے تحت مفتوحہ علاقوں پر نئی آباد کاری غیر قانونی ہے۔ لیکن اسرائیل اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ اسرائیل کی دائیں اور بائیں بازو کی جماعتیں اس بات پر زور دیتی رہی ہیں کہ مغربی کنارے میں یہودی بستیاں قائم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔

اعداد و شمار کے مطابق مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے میں قائم ان 130 بستیوں میں پانچ لاکھ سے زائد یہودی آباد ہیں۔

اوسلو معاہدہ

1993 میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان عالمی کوششوں کے بعد ایک معاہدہ طے پایا جسے 'اوسلو معاہدے' کا نام دیا گیا۔

اس معاہدے کے تحت فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) نے اسرائیل جب کہ اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا۔

لیکن، اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے معاملے پر اختلافات کے باعث یہ معاہدہ منطقی انجام تک نہ پہنچ سکا۔

غزہ کی پٹی پر اثر رکھنے والی فلسطینی تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ بھی وقتاً فوقتاً جاری رہتا ہے۔ اسرائیل کے لبنان سمیت خطے کے مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات بھی کشیدہ ہیں۔

تاہم اسرائیل نے مختلف عرب ممالک بشمول مصر کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کیے ہیں۔ 1967 کی جنگ کے بعد اسرائیل کی جانب سے مشرقی یروشلم اور غرب اُردن میں یہودی بستیوں کے قیام کو امریکہ پہلے غیر قانونی سمجھتا تھا۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ اب ان اقدامات کو غیر قانونی تصور نہیں کرتی۔

فلسطینی انتظامیہ کا یہ مؤقف رہا ہے کہ اسرائیل کو ان علاقوں سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ کیوں کہ اس کے بغیر دو ریاستی حل قابل عمل نہیں ہو سکتا۔

فلسطینیوں کے نزدیک اسرائیل کی جانب سے ان علاقوں میں رکاوٹیں اور عارضی سرحد بنا کر فلسطینیوں کی نقل و حمل کو محدور کر دیا گیا ہے۔

فلسطین کا مؤقف رہا ہے کہ اُن کے لیے کوئی بھی ایسا حل ناقابلِ قبول ہے جس میں مشرقی یروشلم ان کے ملک کا حصہ نہیں ہو گا۔

XS
SM
MD
LG