پاشا, پناٹا ملاقات: کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی,تجزیہ کار

پاشا, پناٹا ملاقات: کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی,تجزیہ کار

یہ معلوم کرنے پر کہ کیا خفیہ ایجنسیوٕں کے سربراہان کی ملاقات کے نتیجے میں درپیش خدشات دور ہوگئے ہیں، جنرل (ر) طلعت مسعود نے کہا کہ ’ کوشش تو دونوں نے یہی کی ہوگی۔ دونوں کو اِس بات کا علم ہے کہ اگر پاکستان کو امریکہ کی اِس وقت ضرورت ہے تو امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے، اور دونوں ملکوں کا مفاداِسی میں ہیں‘

ممتاز دفاعی تجزیہ کارجنرل (ر) طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پناٹا کے درمیان ملاقات ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھنے کی ایک کوشش تھی، خاص طور پر ایسےحالات میں جب ریمنڈ ڈیوس کیس کےبعد، اُن کے بقول، یہ سوچ عام ہے کہ امریکہ کی پاکستان کے اندر خفیہ کارروائیوں کا دائرہ غیرضروری حد تک وسیع ہوچکا ہے۔

اُنھوں نے یہ بات بدھ کو ’وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ خصوصی گفتگو میں کی۔یہ پوچھنے پر کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ خفیہ ایجنسیوٕں کےسربراہان کی ملاقات کےنتیجےمیں درپیش خدشات دور ہوگئے ہیں، جنرل (ر) طلعت مسعود نے کہا کہ ’کوشش تو دونوں نے یہی کی ہوگی۔ دونوں کو اِس بات کا علم ہے کہ اگر پاکستان کو امریکہ کی اِس وقت ضرورت ہے تو امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے، اور دونوں ملکوں کا مفاداِسی میں ہیں۔‘

واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک، یونائٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس (یو ایس آئی پی)سے وابستہ معید یوسف نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ جو اطلاعات ذرائع ابلاغ سے مل رہی ہیں اُن کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے حکام کی ملاقات میں’ کچھ خاص پیش رفت نہیں ہوئی‘۔

اُن کےبقول، لگتا یوں ہے کہ یہ معاملہ کافی پیچیدہ ہوگیا ہے۔ پہلے تعلقات ایسے تھےکہ عوامی سطح پر بہت سے مسائل رہتے تھے لیکن حکومتوں کے درمیان ’ ٹریک ون‘بات چیت میں کوئی ایسا خلل نہیں آیا تھا۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بڑے واضح طور پر سولین حکومت بھی اور پاکستان کی افواج کی لیڈرشپ نے پبلک انداز میں نکتہ چینی کی ہے۔‘

معید یوسف نےپریس رپوٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ لگتا یوں ہے کہ کوئی زیادہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ ’ریمنڈ ڈیوس کے بعد جو معاملہ اُٹھ کھڑا ہوا ہے اُس سے اِس وقت تعلقات بہت زیادہ سرد مہری کا شکار ہیں۔‘

پاکستان اور امریکہ کے اعلیٰ عہدے داروں کی ملاقات کے فوراً بعد شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے کے بارے میں جنرل (ر) طلعت مسعود نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بظاہر پاکستان کو ایسے حملوں پر اعتراض نہیں، لیکن اِن حملوں میں شدت اور درکار انٹیلی جنس پر اعتراض ہو سکتا ہے، اور پاکستان کی کوشش ہوگی کہ حکام کو اعتماد میں لینے کے بعد ہی ایسے حملے کیے جائیں۔

معید یوسف کا بھی یہی خیال ہے کہ ڈرون حملوں پر پاکستان کا مؤقف ایک طرح سے کھلا راز بن چکا ہے۔ اُن کے مطابق ڈرون کے معاملے میں حکومت پاکستان کی کوئی نہ کوئی رضامندی ضرور ہوگی۔’ اصل مسئلہ ڈرون حملوں کا نہیں ، بلکہ اِن کے بار بار ہونے کا ہے، جن میں شاید سولینز کی زیادہ ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔‘

امریکہ سرکاری طور پر بغیر پائلٹ کے طیاروں کے ذریعے پاکستانی علاقوں میں کارروائی سے متعلق بات نہیں کرتا۔ امریکی عہدے داروں نے کبھی بھی اِن حملوں کی تصدیق کی ہے نہ تردید، البتہ امریکی آزاد مبصرین سمجھتے ہیں کہ یہ حملے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف مفید ہتھیار ثابت ہورہے ہیں۔

تفصیل کےلیےآڈیورپورٹ سنیئے: