شمالی وزیرستان: چھ سال بعد چلغوزے چننے کی اجازت

چلغوزے کے خوشے اتارنے کا عمل اگست اور ستمبر کے مہینوں میں شروع ہوتا ہے۔ جس کی صفائی میں لگ بھگ دو ماہ لگتے ہیں۔ اس کے بعد یہ مارکیٹ میں دستیاب ہوتے ہیں۔

شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے چلغوزہ توڑنے کی اجازت نہیں تھی۔ تاہم اس سال فوج کی نگرانی میں تاجروں کو پھل توڑنے کی اجازت ملی ہے۔ جس کے بعد چلغوزے بڑی مقدار میں دستیاب ہیں۔

چلغوزے کے کاروبار سے منسلک تاجروں کا کہنا ہے کہ چھ برس میں نہ صرف تاجروں کا بلکہ ملک کا بھی اربوں روپے کے زرِمبادلہ کی مد میں نقصان ہوا ہے۔ البتہ رواں برس ملک میں چلغوزے دستیاب ہوں گے۔

ایک تاجر کے مطابق جانی خیل کے پہاڑوں سے چلغوزہ بنوں میں میران شاہ روڈ پر قائم 'آزاد منڈی' میں لانے پر اُن کے 18 لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ اُنہیں امید ہے کہ وہ اس کا دو گنا منافع کما لیں گے۔

دتا خیل سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر کا کہنا تھا کہ آپریشن 'راہِ نجات' اور آپریشن 'ضربِ عضب' کی وجہ سے نہ صرف مقامی لوگوں کے گھر اور کاروبار متاثر ہوئے بلکہ خشک میوہ جات کے باغات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

چلغوزے کو خوشے سے الگ کرنے والوں کا ماننا ہے کہ "یہ چلغوزہ نہیں بلکہ ڈالر ہے۔" ان کے بقول چلغوزے برآمد کرنے پر تاجروں اور اس کام سے وابستہ تمام افراد کو بھر پور مالی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر دہشت گردی کے واقعات کو روکنے کے لیے حکومتِ پاکستان نے آہنی باڑ لگائی ہے جس کی وجہ سے تاجروں کے ہزاروں درخت باڑ کے پار افغانستان میں رہ گئے ہیں۔

تاجروں کے مطابق پاکستان افغانستان سرحد پر باڑ لگائے جانے سے سرحد پار رہ جانے والے درختوں سے لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ بوری چلغوزے حاصل ہوتے تھے۔

ایک نوجوان خوشے سے چلغوزے نکال رہا ہے۔

اس کاروبار سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ چلغوزے کی فصل کی فروغ سے شمالی وزیرستان کے نوجوانوں کی توجہ خود بخود شدت پسندی سے ہٹ جائے گی اور وہ اس میوے کے کاروبار کے ذریعے ملک کی ترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں گے۔