پلاسٹک کا بڑھتا استعمال: سمندر، غذا اور ماحول کے لیے ایک نیا چیلنج

پلاسٹک کے استعمال سے سب سے زیادہ سمندر اور آبی حیات متاثر ہورہے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی ایک ریسرچ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کراچی کے ساحلی علاقے کلفٹن میں ایک گرام ریت میں مائیکرو پلاسٹک کے 300 سے زائد ذرات پائے گئے ہیں۔ یہ تعداد آبی حیات کے ساتھ ساتھ انسانوں کے لیے بھی خطرے کی علامت ہے۔
 

ماحول کو مزید آلودگی سے بچانے اور پلاسٹک کا بڑھتا ہوا استعمال روکنے کے لیے اقدامات ناگزیر ہیں۔
 

ڈسپوز ایبل پلاسٹک کا بڑھتا ہوا استعمال بھی اب ایک نیا چیلنج بن گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پلاسٹک چاہے کسی بھی شکل میں ہو، ہمیں اس کا استعمال محدود کرنا ہوگا۔
 

پلاسٹک کے نقصانات سے متعلق معاشرے میں شعور اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔


ورلڈ وائلڈ لائف اور آسٹریلین یونیورسٹی آف نیو کیسل میں ہونے والی ایک ریسرچ میں کہا گیا گیا ہے کہ ہر شخص ہفتے میں تقریباً پانچ گرام پلاسٹک نگل جاتا ہے۔ یہ مقدار ایک مہینے میں 21 گرام اور ایک سال میں ڈھائی سو گرام تک جا پہنچتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں آٹھ ملین میٹرک ٹن پلاسٹک کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے اگر پاکستان پر نظر دوڑائیں تو پلاسٹک سے وابستہ ملکی صنعت 15 فیصد سالانہ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔

پلاسٹک سے بنی بوتلوں کے ڈھکن بوروں میں بھرے ہوئے ہیں جبکہ یہ ڈھکن ساحل پر ہی نہیں بلکہ سڑکوں، دفاتر اور گھروں میں بھی بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے ضائع کردیے جاتے ہیں۔

 

سافٹ ڈرنکس کی بوتلوں کا استعمال ساری دنیا میں عام ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں ری سائیکل کر کے کئی دوسری اور بے ضرر اشیا بنائی جاسکتی ہیں۔
 

 

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق پلاسٹک کے ٹکڑوں سے کیڑے مار ادویات اور زہریلی جڑی بوٹیاں چپکی رہ جاتی ہیں جو کینسر کا باعث ہے۔
 

ماہرین کے مطابق ماحول کو مزید آلودگی سے بچانے اور پلاسٹک کا بڑھتا ہوا استعمال روکنے کے لیے اقدامات ناگزیر ہیں۔
 

سمندر میں مچھلیوں کی اموات کی وجوہات میں سے ایک وجہ پلاسٹک کی آلودگی بھی ہے۔ اس آلودگی کے باعث ماہی گیروں کو معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔