حکومت نے ’سہولت کار‘ کا کردار ادا کرنے کا کہا تھا: فوج

فائل فوٹو

وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے فوج کو ضامن اور ثالث بننے کا کبھی بھی نہیں کہا گیا اور "سہولت کار کے طور پر فوج کا کردار آئینی ہے۔"

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجودہ نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر کہا کہ حکومت نے موجودہ تعطل کو ختم کرنے کے لیے فوج کے سربراہ سے ’سہولت کار‘ کا کردار ادا کرنے کا کہا تھا۔

وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے جمعہ کی شام کو بھی اس بیان کے بعد ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ فوج کا یہ بیان حکومت کے موقف کی ہی عکاسی کرتا ہے۔

"آئی ایس پی آر کا جو تھوڑی دیر پہلے بیان جاری ہوا وہ باقاعدہ میری مشاورت سے بلکہ وہ بیان پہلے میرے پاس آیا اور حکومت کی طرف سے منظور ہوا اور وہ بیان حکومت کے نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے فوج کو ضامن اور ثالث بننے کا کبھی بھی نہیں کہا گیا اور ان کے بقول اسی بات کی قومی اسمبلی میں وضاحت کی گئی تھی۔

"سہولت کار کے طور پر فوج کا کردار آئینی ہے۔"

واضح رہے کہ جمعہ کی دوپہر وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپنے خطاب میں کہا کہ فوج نے نا تو ثالثی کا کردار ادا کرنے کا کہا ہے اور نا ہی حکومت نے ایسی کوئی درخواست کی۔

لیکن اس کے بعد پارلیمان کے باہر دھرنا دیے ہوئے قائدین طاہر القادری اور عمران خان کی طرف سے وزیراعظم کے اس بیان کو "غلط اور جھوٹ" قرار دیا گیا اور ان کا دعویٰ تھا کہ حکومت نے ہی فوج کو ثالثی کے لیے درخواست کی تھی۔

وزیراعظم نے ایوان سے خطاب میں کہا کہ ’’یہ حکومتیں آنی جانی ہیں، صدا دنیا میں کسی کی حکومت نہیں رہی۔۔۔۔۔ میرا نظریہ ہے، میرے اصول ہیں جنہیں میں قربان کسی صورت نہیں کر سکتا۔ البتہ ایک حکومت نہیں دس حکومتیں بھی ملیں تو میں قربان کر سکتا ہوں۔‘‘

پارلیمان کے سامنے دھرنا دینے والی جماعتوں کے قائدین طاہرالقادری اور عمران خان کی جمعرات کی شب دیر گئے فوج کے سربراہ جنرل راحیل سے ملاقات ہوئی تھی۔

طاہرالقادری نے ملاقات سے قبل کہا تھا کہ حکومت نے فوج سے درخواست کی ہے کہ اس معاملے کے حل میں ثالثی اور ضامن کا کردار ادا کرے۔

وزیراعظم نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری نثار کو عسکری قیادت کی طرف سے یہ پیغام ملا کہ عمران خان اور طاہر القادری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملنا چاہتے ہیں۔

’’چوہدری نثار نے کہا کہ وہ پوچھ رہے ہیں کہ وزیراعظم سے اجازت لے کر دیں کہ اگر (عمران خان اور طاہر القادری) ملنا چاہتے ہیں تو کیا آرمی چیف اُن کو مل لیں، جس پر میں کہا کہ اگر درخواست اُن کی طرف سے ہے تو چیف ضرور مل لیں‘‘۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مظاہرین ’’بڑھا چڑھا کر یہ پیش کر رہے ہیں کہ وزیراعظم نے فوج سے یہ درخواست کی ہے کہ ہماری اس سے جان چھڑائیں اور ہمیں کوئی راستہ دیں۔‘‘

قومی اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’’کسی قسم کی ثالثی کا کردار نا تو فوج نے مانگا ہے اور نا ہم نے کوئی درخواست دی ہے، یہ معلوم نہیں کے یہ کیسے چَھپ گیا کیوں چَھپ گیا۔ آپ کو معلوم ہے کہ یہ جو باہر مجمع لگائے بیٹھے ہیں وہ روز کتنے سچ اور کتنے جھوٹ بولتے ہیں۔ اگر اُن کی زبان سے کہا گیا ہے کہ تو پھر آپ جان لیں کہ اس میں کتنی سچائی اور کتنا جھوٹ ہے۔‘‘

قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کا کہنا تھا کہ اگر حکومت جھک بھی گئی تو پیپلز پارٹی جمہوریت کو بچانے کے لیے کسی صورت نہیں جھکے گی۔

’’ہمیں حکومت کو بچانے کا درد نہیں ہے، ہمیں جمہوریت کو بچانے کا درد ہے اس پارلیمنٹ کو بچانے کا درد ہے، ہم یہ بتانا چاہتے ہیں، پیپلز پارٹی اور جتنی بھی جمہوری جماعتیں ہیں اگر حکومت جھک بھی جائے گی تو ہم نہیں جھکیں گے، ہم لڑیں گے جمہوریت کے لیے، دیکھتے ہیں کون ہماری جمہوریت کی اس بساط کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘

پارلیمان کے سامنے دھرنا دینے والی جماعتوں عوامی تحریک کے قائد طاہر القادری اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنے حتمی لائحہ عمل کا اعلان جلد کریں گے۔

تاہم وزیراعظم نے کہا کہ فوج کی طرف سے یہ بیان آ چکا ہے کہ ان تمام عمارتوں کی حفاظت فوج کے ذمے ہے۔ ’’یہ پیغام تھا اُن کو کہ ادھر کا رخ مت کرنا اگر اس کے باوجود وہ (ان عمارتوں کا) رخ کرتے ہیں تو فوج اپنی ذمہ داری نبھائے گی، پولیس اپنی ذمہ داری نبھائے گی، رینجرز اپنی ذمہ داری نبھائے گی۔‘‘