ریاست میری لینڈ میں علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن کا سالانہ مشاعرہ

ریاست میری لینڈ میں علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن کا سالانہ مشاعرہ

ہر سال کی طرح علی گڑھ المنائی ایسویشن کے 37 ویں سالانہ مشاعرے کا آغاز علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلبا نے علی گڑھ ترانے سے کیا۔ مشاعرے میں پاکستان ، بھارت، امریکہ اور دنیا کے مختلف ملکوں سے آئے ہوئے متعدد شعراء نے اپنا کلام پیش کیا اور حاظرین سے داد و تحسین وصول کی۔

مشاعرے کی صدارت پاکستان سے آئے ہوئے معروف شاعر افتخار عارف نے کی جو 37 برسوں میں پہلی بار اس مشاعرے میں شرکت کر رہے تھے۔ افتخار عارف نے امریکہ میں اس مشاعرے کو ایک اچھی روایت قرار دیا۔اس موقع پر ان کا کہناتھاکہ یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے اور یہ دیکھ کر خوشی بھی ہوئی کہ پاکستان اور بھارت کے لوگ ایک چھت کے نیچے بیٹھے ہوئے ہیں۔

بھارت سے حسین الحق جاوید اور ڈاکٹر اشوک ناریان خصوصی طور پر اس مشاعرے کے لیے تشریف لائے۔ ڈاکٹر اشوک نے امریکہ میں اس ادبی ماحول کو سراہا۔

http://www.youtube.com/embed/C9t2IG_jOxw

پاکستان سے آنے والے شاعرں میں انعام الحق جاوید بھی شامل تھے جنھوں نے اپنی مزاحیہ شاعری سے محفل کوکشت زاعفران بنادیا ۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ داغ نے برسو ں پہلے کہا تھا کہ اردو ہے جس نام ہم جانتے ہیں داغ، سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے۔ آج امریکہ میں آکر پتا چلا ہے کہ سارے جہاں میں دھوم مچی ہوئی ہے۔ پاکستان بھارت اور برطانیہ کے بعد امریکہ اردو کی چوتھی بستی ہے۔

برطانیہ سے پاکستانی شاعرہ بانو ارشد نے اس مشاعرے میں شرکت کی جبکہ امریکی ریاست پنسلوانیا سے بھارت کے معروف شاعر جاوید اختر کے بھائی سلمان اختر بھی مشاعرے میں شریک ہوئے۔ سلمان اختر نے نوجوانوں کے لیے انگریزی اور اردو کے امتزاج سے شاعری کی ایک نئی صنف متعارف کرائی جس سے نئی نسل کو اردو ادب کے قریب رکھا جا سکتا ہے۔ ان کا کہناتھا کہ تھوڑی خوشیوں کے بعد غم ہوں گے۔ ہر سلوشن میں پرابلم ہوں گے۔ اسی طرح آج کل لوگ بولتے ہیں۔جس میں انگریزی بھی آگئی ہے۔ تو صرف ہندی اردو کے شاعر ڈرتے ہیں۔ جومناسب نہیں، کیونکہ وقت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔

مشاعرے کے منتظم ڈاکٹر عبدللہ نے کہا کہ یہاں پلے بڑھنے والے نوجوانوں کو اپنی زبان روایات اور ثقافت سے قریب رکھنے میں اگرچہ کامیابی حاصل نہیں ہورہی لیکن کوشش جارہی رہنی چاہیے۔

جبکہ صدر مشاعرہ افتخار عارف نے بھی ان کوششوں کو جاری رکھنے پر زور دیا۔ ان کا کہناتھا کہ یہاں بزرگ اپنے بچوں کو ساتھ لے کر آتے ہیں، جس سے کم از کم اردو ان کے کانوں تک پہنچتی ہے، اور زبان سے کچھ آشنائی رہتی ہے۔