انتہا پسندی ’مذہب کا غلط استعمال‘، قابلِ مذمت فعل: پاپائے روم

’کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے آپ کو خدا کا سپاہی کہے، ایسے میں جب وہ شدت پسندی اور ظلم پر مبنی کارروائیاں کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہو یا اُس پر عمل درآمد پر تُلا ہوا ہو‘

پوپ فرینسس نے دنیا بھر کے انتہاپسندوں کی مذمت کی ہے، جو، بقول اُن کے، اپنی شدت پسندی کا جواز پیش کرنے کے لیے مذہب کو غلط لبادا پہناتے ہیں۔

اتوار کے روز البانیا کے دارالحکومت آمد پر، پوپ نے کہا کہ،’کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے آپ کو خدا کا سپاہی کہے، ایسے میں جب وہ شدت پسندی اور ظلم پر مبنی کارروائیاں کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہو یا اُس پر عمل درآمد پر تُلا ہوا ہو‘۔

پاپائے روم نے علاقہٴ بلکان کے اِس ملک کو سراہتے ہوئے، اسے ’قابلِ تقلید‘ مثال قرار دیا، جہاں مسیحیوں اور مسلمانوں نے کمیونزم کے دور میں وحشیانہ مظالم جھیلے، تاہم، اب وہ ایک ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں اور پُرامن طور پر کام کرتے ہیں۔

جب 11 گھنٹے کے لیے، پوپ ایک مسلمان اکثریتی ملک کے دورے پر آئے، تو سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ یہ اُن کا اٹلی سے باہر کسی یورپی ملک کا پہلا دورہ تھا۔

روم کے کیتھولک لیڈر نے ترانا میں مدر ٹریسا چوک پر ایک عبادت کی مجلس کی قیادت کی، اور البانیا کے صدر، بُجار نیشانی سے ملاقات کی۔

اِس موقع پر، مدر ٹریسا اسکوائر جانے والی شاہراہوں پر کیتھولک پادریوں اور ’ننز‘ کی بڑی تصاویر آویزاں کی گئی تھیں، جنھیں کمیونسٹ دور میں مظالم کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

البانیا میں کیتھولک عقیدے کے احیاٴکا سبب مدر ٹریسا کی مقبولیت بتائی جاتی ہے، جو یہاں پیدا ہوئیں، جس علاقے کو اب ’میسے ڈونیا‘ کہا جاتا ہے، لیکن وہ البانوی نژاد تھیٕں۔

اسٹالن نواز مطلق العنان، انور ہوزا کے دور میں، جِنھوں نے سنہ 1967 میں البانیا کو دنیا کی پہلی بے دین ریاست قرار دے کر سینکڑوں پادریوں اور اماموں کو پابند سلاسل کیا گیا اور 1990ء میں حکومت کی تبدیلی سے قبل، بیسیوں افراد کو پھانسیاں دی گئیں۔

ملک کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، البانیا کی آبادی میں تقریباً 59 فی صد لوگ مسلمان ہیں، جب کہ کیتھولک 10 فی صد کے برابر اور اُس سے کچھ کم تعداد ’اورتھوڈوکس‘ مسیحیوں کی ہے۔

البانیا کا دورہ کرنے پر، صدر نیشانی نے پوپ فرینسس کا شکریہ ادا کیا، جو یورپ کے دورے میں اُن کی پہلی منزل تھی۔

اُن کا کہنا تھا کہ پوپ کا البانیا کا یہ دورہ ایک تاریخی موقع ہے۔ بقول اُن کے، ’ہم لوگوں میں عدم برداشت، انتہا پسندی نہیں ہے، بلکہ نسل در نسل ہمیں ایک دوسرے کی عزت و احترام کرنا اور برداشت کا ورثہ ملا ہے۔ ایک بے دین ملک سے، ہم نے مذہبی آزادی کا حامل یہ ملک بنایا ہے‘۔