ایم کیو ایم کی علیحدگی، پی پی کے لئے مثالی صورتِ حال؟

PPP and MQM

پیپلزپارٹی نے ایک سچے اتحادی کی طرح ایم کیو ایم کا ساتھ دیا، حتیٰ کہ اس ساتھ کی خاطر اس نے دوسری اتحادی جماعتوں کو بھی ناراض کر دیا
ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کے بعد کی صورتحال حکمراں جماعت پیپلزپارٹی کے لئے نہایت ’آئیڈیل‘ ہے۔ سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اب پی پی کو کھل کو انتخابی میدان میں آنے کا موقع مل گیا ہے۔ کچھ ’سیاسی پنڈت‘ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اب پیپلز پارٹی ’ایک تیر سے کئی شکار‘ کر سکتی ہے۔

مبصرین کے مطابق سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کا نفاذ ہو یا کراچی میں گھر گھر ووٹر فہرستوں کی تصدیق کا عدالتی حکم، پیپلزپارٹی نے ایک سچے اتحادی کی طرح ایم کیو ایم کا ساتھ دیا، حتیٰ کہ اس ساتھ کی خاطر اس نے فنکشنل لیگ اور اے این پی جیسی اتحادی جماعتوں اور ان کے رہنماوٴں کو بھی ناراض کردیا۔

لیکن، ایم کیو ایم کی عین انتخابات سے قبل علیحدگی نقصان کے بجائے آئیڈیل سٹیوئشن پیدا کرنے کا سبب بن گئی ہے۔ کم از کم اب پی پی کی اندرون سندھ انتخابی سرگرمیوں میں بظاہر کوئی رکاوٹ نظر نہیں آرہی۔

سیاسی مبصرین کاخیال ہے کہ پیپلزپارٹی کے ہوم گراوٴنڈ یعنی سندھ میں لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012ء حکمراں جماعت کے پیروں میں ایک ایسی زنجیر تھی جس سے اسے اپنے ہی قلعوں کی حفاظت میں دشواری کا سامنا تھا۔ لہذا، ایم کیو ایم کی علیحدگی کے صرف پانچ روز بعد اچانک ہی سندھ اسمبلی میں بلدیاتی نظام 1979ء کی بحالی کا بل منظور کرلیا اور اگلے روز ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے گورنر سندھ جیسے ہی لندن روانہ ہوئے پیپلزپارٹی کے قائم مقام گورنرسندھ نے اس بلدیاتی نظام پر دستخط کرکے گورنمنٹ ایکٹ2012ء کو ’قصہ پارینہ‘ بنا دیا۔

نواز-پگارا ملاقات کے بعد گرینڈ الائئنس کے امکانات مزید روشن

صوبہ سندھ ہمیشہ سے پیپلزپارٹی کا گڑھ رہا ہے۔ تاہم، نئے بلدیاتی نظام کے حوالے سے اسے سندھ میں کڑی تنقید کا سامنا تھا۔ اسی تناظر میں مسلم لیگ ن نے سندھ میں اینٹری ڈالی اور نواز شریف اور پیر پگارا کی منگل کو ہونے والی ملاقات نے پیپلزپارٹی کے خلاف گرینڈ الائنس بننے کے امکانات روشن کردیئے۔ مسلم لیگ فنکشنل، مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی، جے یو آئی فضل الرحمٰن اور سندھ کی قوم پرست جماعتوں کے قائدین کے پہلے ہی متعدد بار بیانات سامنے آچکے تھے۔

بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی فنکشنل لیگ کی نصرت سحر عباسی کو بھی سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنانے کا نوٹی فکیشن جاری کر سکتی ہے جس سے اس کیلئے فنکشنل لیگ کے دل میں نرم گوشہ پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ تمام تر صورتحال جہاں ن لیگ کیلئے زیادہ اچھی نہیں وہیں قوم پرست جماعتوں کی چمک دھمک بھی ماند پڑ سکتی ہے۔

پیپلزپارٹی کے اندرونی ممکنہ اختلافات ختم

لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012ء پر اندرون سندھ میں پیپلزپارٹی کی اپنی قیادت بھی زیادہ خوش نہیں تھی اور ایک یہ تاثر تھا کہ شاید آئندہ انتخابات میں پارٹی کے اندر ہی کوئی پھوٹ پڑ سکتی ہے۔ لیکن، نئے بلدیاتی نظام کے خاتمے کے بعد یہ خطرہ ٹل گیا اور اندرون سندھ کے رہنما اور کارکنان کافی خوش ہیں جس کا مظاہرہ نیا بلدیاتی نظام ختم ہونے کے بعد اندرون سندھ پیپلزپارٹی کی ریلیوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

لیاری میں پیپلزپارٹی کا راج لوٹ آیا

کراچی کے علاقے لیاری میں گزشتہ سال قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے آپریشن پر یہاں پیپلزپارٹی کی قیادت کے بارے میں منفی اثرات پائے جاتے تھے جس کا اندازہ وہاں کی دیواروں پر لکھی تحریروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ تاہم، ایم کیو ایم سے علیحدگی اور لیاری آپریشن کے بعد لیاری کے کئی افراد کے سروں پر مقررہ انعام کی رقم اور مقدمات معاف کرنے کے بعد پیپلزپارٹی کھوئی ہوئی مقبولیت دوبارہ حاصل کر سکتی ہے۔

ذوالفقار مرزا کی واپسی؟

یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ فیصل رضا عابدی کے بعد جلد سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا بھی ایک بار پھر پیپلزپارٹی میں سرگرم ہوں گے۔ ذوالفقار مرزا ایم کیو ایم کے سخت مخالف سمجھے جاتے ہیں اور ان کے اس بیان پر کہ پیپلزامن کمیٹی پیپلزپارٹی کی ذیلی تنظیم ہے، ایم کیو ایم حکومت بھی چھوڑ چکی تھی لہذا ان کی واپسی سے لیاری والے پھر تیر پر ٹھپہ لگا سکتے ہیں۔

سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اس تمام تر تناظر میں ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی پیپلزپارٹی کیلئے کوئی بڑا دھچکا نظر نہیں آ رہا، اگرچہ یہ عام تاثر ہے کہ دونوں جماعتوں کے خراب تعلقات کے کراچی کے حالات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن، کراچی کے حالات پہلے ہی زیادہ اچھے نہیں، لہذا پیپلزپارٹی موجودہ حالات میں ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی پوزیشن میں آ گئی ہے۔