برطانوی پارلیمنٹ کی ممکنہ معطلی کے خلاف احتجاج

برطانیہ کے دار الحکومت لندن اور متعدد دیگر شہروں میں بدھ کی رات ہزاروں افراد نے مظاہرے کیے اور وزیرِ اعظم بورس جانسن کے پارلیمان کی ممکنہ معطلی کے اقدام کے خلاف نعرے بازی کی۔

برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کے مطابق ملکۂ برطانیہ کوئن الزبتھ دوم نے بدھ کو وزیرِ اعظم بورس جانسن کے پارلیمان کو معطل کرنے کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔

برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی ڈیڈ لائن 31 اکتوبر ہے اور بورس جانسن اس حتمی تاریخ سے قبل یونین سے علیحدگی چاہتے ہیں۔ وہ اس بات کے خواہش مند ہیں کہ برطانیہ بغیر کسی معاہدے کے یورپی یونین سے علیحدہ ہو جائے۔

برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن کہہ چکے ہیں کہ 31 اکتوبر تک برطانیہ کسی نئے معاہدے کے تحت یا پھر معاہدے کے بغیر ہی یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کر لے گا۔

حکومت کا مؤقف ہے کہ ستمبر اور اکتوبر کے وسط میں پارلیمنٹ کی پانچ ہفتے کی معطلی سے یورپی یونین سے علیحدگی کے معاہدے پر بحث کرنے کا وقت مل جائے گا۔ لیکن ناقدین حکومت کے اس اقدام کو ’غیر جمہوری‘ کوشش قرار دے رہے ہیں۔

حزبِ اختلاف کی جانب سے آئندہ ہفتے کے آغاز میں ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا جائے گا جس میں حکومت کے ممکنہ منصوبے اور یورپی یونین سے معاہدے کے بغیر علیحدگی کے معاملات پر بحث کی جائے گی۔

وزیرِ اعظم بورس جانسن کے ممکنہ اقدام کے خلاف درخواست وائرل ہو گئی ہے جس پر چند گھنٹوں کے دوران 10 لاکھ سے زائد افراد نے دستخط کیے ہیں جب کہ سوشل میڈیا پر برطانوی عوام کی طرف سے ملا جلا ردّعمل سامنے آرہا ہے۔

سابق برطانوی وزیرِ اعظم تھریسا مے نے بھی بریگزٹ کے لیے کوششیں کیں لیکن پارلیمان نے تھریسامے اور یورپی یونین کے درمیان ہونے والے معاہدے کو تین مرتبہ مسترد کیا۔ پارلیمان سے معاہدہ منظور نہ ہونے پر تھریسا مے نے وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورس جانسن یورپی یونین سے کسی معاہدے کے بغیر علیحدگی سے قبل پارلیمنٹ کو معطل کرنا چاہتے ہیں۔ حزبِ اختلاف نے بورس جانسن کے اس اقدام کی شدید مخالفت کرتے ہوئے احتجاج کیا ہے۔