رسائی کے لنکس

بریگزٹ: برطانیہ سے کاروباری اداروں کی دوسرے ممالک منتقلی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

نیدر لینڈز کے ایک سرکاری ادارے نے بتایا ہے کہ برطانیہ کے یورپ سے الگ ہونے (بریگزٹ) کے باعث 100 کاروباری ادارے یورپی یونین میں کاروبار برقرار رکھنے کے لیے نیدرلینڈز منتقل ہو چکے ہیں یا انہوں نے یہاں دفاتر قائم کر لیے ہیں۔

برطانیہ کی یورپ سے علیحدگی کی تاریخ جیسے جیسے قریب آ رہی ہے کاروباری ادارے بھی استحکام کے لیے نئی حکمت عملی اختیار کر رہے ہیں۔

نیدرلینڈز میں بیرونی سرمایہ کاری کی نگرانی کرنے والی ایجنسی کے مطابق 325 کاروباری ادارے یا کمپنیاں ایسی ہیں جو یورپی یونین میں اپنا کاروبار متاثر ہونے کے باعث پریشانی کا شکار ہیں۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق فارن انویسٹمنٹ ایجنسی کے کمشنر شیروئن نئیلینڈ کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے یورپ سے علیحدگی کے لیے کوئی معاہدہ نہ ہونے سے غیر یقینی صورت حال ہے جس سے کاروباری ادارے بڑے پیمانے پر معاشی نقصان کے اندیشے کا شکار ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ کی غیر یقینی صورت حال کے باعث اکثر و بیشتر کاروباری ادارے نیدرلینڈز میں اپنی موجودگی کو یقینی بنا رہے ہیں کیوں کہ اب یہ ملک یورپی مارکیٹ کا مرکز ہو گا۔

نیدر لینڈز کی فارن انویسٹمنٹ ایجنسی کے مطابق جو کاروباری ادارے یا کمپنیاں نیدر لینڈز آ چکی ہیں یا آنا چاہتی ہیں ان میں مالیاتی کمپنیاں، انفارمیشن ٹیکنالوجی فرمز، میڈیا ادارے، ایڈورٹائزنگ ایجنسیاں، لائف انشورنس اور طبی سہولیات فراہم کرنے والے ادارے شامل ہیں۔

برطانیہ کی یورپ سے علیحدگی پر نیدر لینڈز کے علاوہ جرمنی، فرانس، بیلجیئم اور آئر لینڈ بھی کاروباری اداروں کے لیے کشش کا سبب ہو سکتے ہیں۔

برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کہہ چکے ہیں کہ چاہے کوئی معاہدہ ہو یا نہ ہو، وہ اکتوبر کے آخر تک یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کر لیں گے۔

خیال رہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر دو وزرائے اعظم کے استعفوں کے بعد بورس جانسن گزشتہ ماہ ہی وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں۔

برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق 2016 میں ہونے والے ریفرنڈم کے بعد سے ملک سیاسی بحران کا شکار ہے۔

بورس جانسن نے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالتے ہی کہا تھا کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر ’’اگر مگر‘‘ نہیں ہوگی۔ یورپی یونین سے بات کرنے کے لیے 31 اکتوبر تک کا وقت موجود ہے۔

دوسری جانب یورپی یونین کی جانب سے بارہا کہا جا چکا ہے کہ معاہدے میں ترمیم نہیں کی جائے گی۔

واضح رہے کہ سابق وزیرِ اعظم تھریسا مے کی حکومت اور یورپی یونین نے برطانیہ کی یونین سے علیحدگی کے بارے میں کئی ماہ طویل مذاکرات کے بعد جس معاہدے پر اتفاق کیا تھا اسے برطانوی پارلیمان تین بار مسترد کر چکی ہے۔

حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کے ارکانِ پارلیمان کی اکثریت بھی معاہدے کی مخالفت میں پیش پیش تھی۔

تھریسا مے نے معاہدے کی پارلیمان سے منظوری کے لیے حزب اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی سے بھی تعاون مانگا تھا جس کے انکار پر وہ بالآخر اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئی تھیں۔

XS
SM
MD
LG