نئی دہلی: بغاوت کے الزام میں یونیورسٹی کے استاد بھی زیر حراست

فائل فوٹو

ان گرفتاریوں کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج دیکھنے میں آرہا ہے اور منگل کو بھی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں طلبا نے احتجاج کرتے ہوئے کنہیا کمار کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں طلبا، صحافیوں اور اساتذہ کی طرف سے منگل کو بھی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا جو کہ ایک طالب علم رہنما کی گرفتاری اور ہندو قوم پرستوں کی طرف سے پرتشدد واقعات کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

ملک میں ایک بار پھر اس بارے میں آواز بلند کی جا رہی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی حب الوطنی کے نام پر مبینہ طور پر مخالفین سے متعلق عدم برداشت کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ایک طالبعلم رہنما کنہیا کمار کو گزشتہ ہفتے پولیس نے گرفتار کیا تھا اور ان کے خلاف بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے بھارتی پارلیمنٹ پر حملے میں ملوث علیحدگی پسند افضل گورو کو 2013ء میں دی گئی پھانسی کے خلاف نعرے بازی کی اور اس سلسلے میں منعقدہ ایک تقریب میں ان کے حق میں نعرے لگوائے۔

منگل کو علی الصبح پولیس نے دہلی یونیورسٹی کے ایک استاد ایس اے آر گیلانی کو ایسے ہی الزامات کے تحت حراست میں لے لیا۔

ان گرفتاریوں کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج دیکھنے میں آرہا ہے اور منگل کو بھی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں طلبا نے احتجاج کرتے ہوئے کنہیا کمار کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

کسی بھی ممکنہ تصادم سے بچنے کے لیے پولیس کی اضافی نفری کو شہر میں تعینات کیا گیا ہے۔

ادھر بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامیوں نے احتجاج کرنے والوں کو قوم مخالف قرار دیا ہے اور پولیس کا کہنا ہے کہ وہ دونوں جانب کے موقف کی تحقیقات کر رہی ہے۔

وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ بھارت مخالف نعروں کو "برداشت نہیں کیا جائے گا" جب کہ انسانی وسائل کی وزیر سمرتی ایرانی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ "قوم مادر وطن کی توہین برداشت نہیں کرسکتی۔"

صحافی تنظیموں کی طرف سے نئی دہلی میں ریلی نکالی گئی جو کہ پیر کو ہونے والے مظاہروں کی کوریج کے دوران ان پر قوم پرستوں کے مبینہ تشدد کے خلاف تھی۔