لشکرِ طیبہ کے کمانڈر کی ہلاکت پر کشمیر میں احتجاج، جھڑپیں

فائل

ابو دجانہ کے سر پر 15 لاکھ روپے کا انعام بھی تھا اور فوج کی طرف سے مقرر کردہ درجہ بندی میں اُسے 'اے پلس پلس کیٹیگری ٹیررسٹ' ظاہر کیا گیا تھا۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند مسلح تنظیم لشکرِ طیبہ کے ایک اعلیٰ کمانڈر کی ہلاکت کے بعد وادی میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں جب کہ حکومت نے کئی علاقوں میں انٹرنیٹ اور ٹرین سروس بھی معطل کردی ہے۔

کشمیر پولیس کے ترجمان منوج پنڈیتا نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ سکیورٹی دستوں نے جنوبی ضلع پلوامہ کے ہرکی پورہ نامی گاؤں میں منگل کو علی الصباح لشکرِ طیبہ کے اعلیٰ کمانڈر ابو دُجانہ کی موجودگی کی اطلاع پر کارروائی کی تھی۔

ترجمان کے مطابق سکیورٹی فورسز کے دستوں نے صبح چار بجے کے قریب علاقے کو گھیرے میں لے کر آپریشن شروع کیا تھا جس میں شدید لڑائی کے بعد ابو دجانہ اور اس کے ایک ساتھی عارف لیلہاری مارے گئے۔

بھارت کے سکیورٹی حکام نے ابو دُجانہ کی ہلاکت کو ایک "بہت بڑی کامیابی" قرار دیا ہے۔

ابو دجانہ عرف حافظ کا نام بھارتی فوج کی طرف سے اس سال جون کے مہینے میں جاری کی گئی ان 12 افراد کی فہرست میں پہلے نمبر پر تھا جنہیں فوج نے"سب سے خطرناک دہشت گرد" قرار دیا تھا اورکہا تھا کہ انہیں زندہ یا مردہ پکڑنا فوج کی اولین ترجیح ہے۔

حکام کے مطابق ابو دجانہ پاکستانی شہری تھا اور نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں دسمبر 2014ء سے سرگرم تھا۔

ابو دجانہ کے سر پر 15 لاکھ روپے کا انعام بھی تھا اور فوج کی طرف سے مقرر کردہ درجہ بندی میں اُسے 'اے پلس پلس کیٹیگری ٹیررسٹ' ظاہر کیا گیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق سکیورٹی فورسز نے گھر میں محصور ابو دُجانہ اور اُس کے ساتھی کے خلاف کارروائی کے فیصلہ کن مرحلے میں مارٹر بم اور دھماکہ خیز مواد استعمال کیے جس کے نتیجے میں وہ گھر اور اس کے ساتھ موجود ایک اور گھر تباہ ہوگئے۔

بعد ازاں سکیورٹی اہلکاروں نے ملبےسے دو سوختہ لاشیں برآمد کیں جنہیں انسپکٹر جنرل آف پولیس منیر احمد خان نے ایک پریس کانفرنس میں ابو دُجانہ اور اُس کے ساتھی عارف قرار دیا ہے۔

تاہم علاقے میں موجود ایک پولیس افسر نے بتایا ہے کہ لاشیں اس قدر جلی ہوئی ہیں ان کی شناخت کرنا مشکل ہورہا ہے۔

کشمیر کے آئی جی پولیس نے مزید کہا ہے کہ دونوں شدت پسندوں کو ہتھیار ڈال کر خود کو قانون کے حوالے کرنے کا موقع دیا گیا تھا لیکن انہوں نے لڑنے کو ترجیح دی اور مارے گئے۔

ابو دُجانہ کی ہلاکت کی خبر پھیلتے ہی نئی دہلی کے زیرِ انتظام مسلم اکثریتی وادئ کشمیر میں سری نگر اور پلوامہ سمیت کئی مقامات پر مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئیں جو آخری اطلاع آنے تک جاری تھیں۔

فورسز کے دستوں نے کئی مقامات پر مظاہرین اور پتھراؤ کرنے والے افراد پر گولی چلائی اور پیلٹ گن استعمال کیے اور آنسو اور پیپر گیس کے گولے داغے۔

جھڑپوں میں ایک نوجوان فردوس احمد ہلاک ہوگیا ہے جب کہ درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ پلوامہ کے ضلعی اسپتال کے باہر جہاں زخمیوں کو لایا جا رہا تھا، سکیورٹی اہلکاروں کی فائرنگ سے ایک نرس اور ایک طالبِ علم بھی زخمی ہوئے ہیں۔

واقعے کے بعد پلوامہ میں وسیع پیمانے پر تشدد بھڑک اُٹھا اور مظاہرے ، تشدد اور پولیس اور نیم فوجی دستوں پر سنگباری کا سلسلہ دوپہر کے بعد کئی علاقوں تک پھیل گیا جن میں طلبہ اور طالبات بھی شریک نظر آئے۔

جھڑپوں کے بعد حکام نے وادئ کشمیر کے تمام تعلیمی اداروں کو بند کردیا ہے۔ حکام نے وادی میں زمینی فون لائنز پر دستیاب براڈ بینڈ کے علاوہ تمام انٹرنیٹ سروسز بھی معطل کردی ہیں اور علاقے میں ریل سروسز کو بھی بڑھتے ہوئے تناؤ کے پیشِ نظر حفظِ ماتقدم کے طور پر بند کردیا گیا ہے۔