پنجاب یونیورسٹی میں تصادم کے بعد ’پشتون طالب علموں کا احتجاج‘

اگرچہ پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ کے اقدامات کے بعد درس گاہ میں تو اب حالات معمول پر آگئے ہیں لیکن یونیورسٹی سے باہر پرامن احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

لاہور میں پنجاب یونیورسٹی میں21 مارچ کو پشتون اور جماعت اسلامی کے طالب علموں کے درمیان تصادم کے بعد پشتون طالب علم سراپا احتجاج ہیں۔

پشتون اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن نے ہفتہ کو کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرہ کیا اور اس موقع پر روایتی ’اتن‘ رقص بھی کیا۔

واضح رہے کہ پشتون طالب علموں کا موقف ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں ’پشتون کلچر ڈے‘ کی مناسبت سے تقریب جاری تھی جس میں طالب علم روایتی رقص میں مصروف تھے کہ اسی اثنا میں اُن پر مبینہ طور پر جماعت اسلامی کے طالب علموں نے حملہ کر دیا۔

تصادم کے دوران 10 سے طالب علم زخمی ہو گئے تھے جب کہ اس تصادم کو رکوانے اور طالب علموں کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کا بھی استعمال کیا۔

جب کہ جماعت اسلامی کے اسٹوڈنٹ ونگ کا موقف رہا رہے کہ اُن کا بھی یونیورسٹی کے احاطے میں ایک پروگرام ہو رہا تھا اور اُنھوں نے پشتون طالب علموں کو موسیقی بند کرنے کے لیے کہا تھا، لیکن جب ایسا نا کیا گیا تو تلخی بڑھ گئی۔

اگرچہ پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ کے اقدامات کے بعد درس گاہ میں تو اب حالات معمول پر آگئے ہیں لیکن یونیورسٹی سے باہر پرامن احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

جمعہ کو ہی اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے باہر ایک طرف جماعت اسلامی کی طالبات کا احتجاج تھا تو اس سے کچھ ہی قدم کے فاصلے پر پشتون طالب علم صدائے احتجاج بلند کرتے نظر آئے۔

پشتون طالب علموں کا موقف ہے کہ اُنھوں نے باقاعدہ اجازت کے بعد پنجاب یونیورسٹی میں ’کلچر ڈے‘ کی تقریبات کا انعقاد کیا تھا جب کہ اُن کے بقول جماعت اسلامی کے طالب علموں کے ونگ نے بغیر اجازت کے ’یوم پاکستان‘ کے حوالے سے قریب ہی تصویری نمائش منعقد کی۔

پنجاب یونیورسٹی میں جماعت اسلامی کی طلبا تنظیم ’جمعیت‘ ایک بااثر تنظیم رہی ہے جب کہ اس یونیورسٹی میں صوبہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پشتون طالب علموں کی تعداد چند سو ہے۔

ملک کی ایک پرانی اور بڑی یونیورسٹی میں اس طرح کی کشیدگی کے بعد مقامی ذرائع ابلاغ کے علاوہ ’سوشل میڈیا‘ پر ایک بحث کا آغاز ہو گیا اور کئی حلقوں کی طرف سے پشتون ثقافتی تقریب میں خلل ڈالنے پر ’جمعیت‘ کو تنقید کا بھی سامنا رہا۔

تاہم جماعت اسلامی طلبا تنظیم کا کہنا ہے کہ صورت حال کی خرابی پر محض اُسے ہدف تنقید بنانا درست نہیں۔