امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی روس سے بڑے پیمانے پر جوہری ایندھن اور کمپاؤنڈ درآمد کر رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں ماسکو کو لاکھوں ڈالر کی آمدن ہورہی ہے جس کی اسے یوکرین میں اپنی جنگ لڑنے کےلیے اشد ضرورت بھی ہے۔
یہ فروخت قانونی پابندیوں سے ماورا ہے اور اس فروخت کے حوالے سے ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے ماہرین اور منتخب عہدیداروں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ یہ درآمدات ماسکو کو جوہری ہتھیاروں کی ترقی میں مدددے رہی ہیں اور ان کی وجہ سے روس کی جنگی صلاحیتوں کو کم کرنے کی کوششیں پیچیدہ ہو رہی ہیں ۔
روس کی جوہری مصنوعات پر انحصار اس ایندھن کے لئے ہے جو زیادہ تر سویلین ری ایکٹروں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔اگر روسی صدر ولادی میر پوٹن سپلائی بند کر دیتے ہیں تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو توانائی کی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے اور اس چیلنج میں مزید شدت پیدا ہونے کا امکان ہے کیونکہ یہی ممالک ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایسی بجلی کی پیداوار کو بڑھانا چاہتے ہیں جس سے مضر اخراج نہ ہو۔
ہنری سوکولسکی واشنگٹن میں قائم ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے پالیسی ایجوکیشن سینٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ ہمیں ہتھیار تیار کرنے والوں کو ادائیگی کرنا ہے ؟ یہ بے معنی بات ہے۔ اگرکوئی واضح اصول نہیں ہے جو جوہری توانائی استعمال کرنے والے ملکوں کو روس سے سستا ایندھن درآمد کرنے سے روکتا ہے تو وہ ایسا کیوں نہیں کریں گے؟‘‘
یورپ کا روسی جوہری مصنوعات پر انحصار
تجارتی اعداد و شمار اور ماہرین کے مطابق روس نے تقریباً 1.7 بلین ڈالر کی جوہری مصنوعات امریکہ اور یورپ کی کمپنیوں کو فروخت کی ہیں ۔اور ایسا 2022 میں ماسکو کے یوکرین پر حملےکے بعد عائد کی گئی سخت عالمی پابندیاں کے باوجود ہوا ہے ، جن کے تحت تیل، گیس، ووڈکا اور کیویار جیسی روسی اشیا کی درآمد پر پابندی لگائی گئی تھی۔
یوکرین نے روس پر الزام لگایا ہے کہ وہ امدادی کارکنوں کو لگاتار میزائل حملوں سے نشانہ بنا رہا ہے جبکہ مغرب روس کی جوہری برآمدات کو ہدف بنانے سے گریزاں ہےکیونکہ وہ ری ایکٹروں کو فعال رکھنے کے لئے ضروری ہیں۔ یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق روس نے گزشتہ سال امریکہ کی جوہری صنعت کو تقریباً 12 فیصد یورینیم فراہم کیا۔ یورپ نے 2022 میں اپنے یورینیم کا تقریباً 17 فیصد روس سے حاصل کرنے کی اطلاع دی۔
توقع کی جا رہی کہ دنیا کے کئی ملکوں کا جوہری توانائی پر انحصار بڑھ جائے گا کیونکہ دنیا کا ہر ملک کوئلے اور قدرتی ایندھن کا متبادل تلاش کر رہا ہے۔ نیوکلیئر پاور پلانٹس سے کسی دھویں کا اخراج نہیں ہوتا، جس سے ماحول میں آلودگی شامل ہو، لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جوہری توانائی کے ری ایکٹر بھی پگھلنے کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں اور تابکار فضلے کو محفوظ طریقے سے ذخیرہ کرنے کا چیلنج بھی درپیش ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت تقریباً 60 ری ایکٹر زیر تعمیر ہیں جبکہ 300 مزید منصوبہ بندی کے مراحل میں ہیں۔
جوہری توانائی پیدا کرنے والے پلانٹس
دنیا کے 30 ملکوں میں سے کئی تقریباً 440 پلانٹس سے ایٹمی توانائی پیدا کررہے ہیں اور روس کی سرکاری توانائی کارپوریشن، روساٹوم اور اس کے ذیلی اداروں سے تابکار مواد درآمد کر رہے ہیں۔ روس کی سرکاری توانائی کارپوریشن روساٹوم یورینیم کی افزودگی کے حوالے سے دنیا میں سرفہرست ہے اور 2022 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق یورینیم کی پیداوار اور ایندھن کی تیاری میں تیسرے نمبر پر ہے۔
روسا ٹوم (روس کی سرکاری توانائی کارپوریشن) کا کہنا ہے کہ وہ 33 نئے ری ایکٹر بنا رہی ہے اور لندن میں قائم رائل یونائیٹڈ سروس انسٹی ٹیوٹ کے اعداد و شمار کے مطابق روس کی اس کارپوریشن کے ذیلی اداروں نے گزشتہ سال تقریباً 2.2 بلین ڈالر مالیت کا سامان اور مواد برآمد کیا ہے جس کا تعلق جوہری توانائی سے ہے ۔
اس انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہونے کا امکان ہے کیونکہ اس طرح کی برآمدات کے بارے میں معلومات حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ روساٹوم کے چیف ایگزیکٹو الیکسی لیخاچیوف نے روسی اخبار ازوستیا کو بتایا کہ کارپوریشن کے غیر ملکی کاروبار کو آئندہ عشرے میں 200 بلین ڈالر تک پہنچنا چاہئیے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منافع بخش سویلین کاروبار روسا ٹوم کی دوسری بڑی ذمہ داری کے لیے اہم فنڈز فراہم کرتا ہے جس سے روس کے جوہری ہتھیاروں کو ڈیزائن اور تیار کیا جاتا ہے ۔
یوکرین کے تحفظات
یوکرین کے حکام نے عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ روس کی آمدنی کے اہم ذریعے یعنی روس کی سرکاری توانائی کارپوریشن روساٹوم پر پابندی عائد کی جائے اور روس کو یوکرین کے خلاف جاری محاذ آرائی سے روکا جائے۔
روسی افواج کے یوکرین میں قائم زپوریزہیا جوہری پاور پلانٹ پرقبضے کے بعد یوکرین کے صدر ویلودومیر زیلنسکی نے ایک بار پھر مغربی رہنماؤں پرزور دیا ہے کہ (روس کی سرکاری توانائی کارپوریشن) روساٹوم کو ہدف بنایا جائے ۔ روساٹوم جزوی طور پر بند ہونے والے زپوریزہیا جوہری پاور پلانٹ کو چلا رہا ہے ، جبکہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے بارہا خبردار کیا ہے کہ روس کے زیر قبضہ اس تنصیب سے تابکاری کا اخراج بڑی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔
جوہری توانائی کے استعمال کے حامیوں کا کہنا ہے کہ امریکہ اور بعض یورپی ملکوں کو روس سے جوہری مصنوعات کی درآمد میں کمی کے باعث اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکہ کی جوہری توانائی کی صنعت بڑے پیمانے پر اپنے ایندھن کو بیرونی ذرائع سے حاصل کرتی ہےاور تقریباً 20فیصد بجلی امریکی وسائل سے پیدا کی جاتی ہے۔
امریکہ کے مردم شماری بیورو کے مطابق روس سے امریکہ کو بھیجے گئے جوہری ایندھن اور مصنوعات کی قیمت گزشتہ سال 871 ملین ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔یہ انحصار کئی دہائیوں سے جاری ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی یورینیم کی صنعت کو 1993 میں جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ معاہدے کے بعد دھچکہ لگا اور نتیجے میں روس سے سستے ہتھیاروں کی تیاری کے لیے درکار یورینیم کی درآمدشروع ہوئی۔
2011 میں جاپان کے فوکوشیما ڈائیچی پاور پلانٹ کے تین ری ایکٹرز کو نقصان پہنچا جس کے بعد جوہری ایندھن کی مانگ میں عالمی سطح پر کمی ہوئی ۔
امریکی نیوکلر پلانٹس اور انحصار میں کمی کی حکمت عملی
امریکی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق امریکی نیوکلیئر پلانٹس نے 2021 میں مطلوبہ یورینیم کا 5فیصد ملک کے اندر سے خریدا۔ اس طرح کے پلانٹس کے لیے یورینیم کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ قازقستان تھاجس نے تقریباً 35 فیصد یورینیم فراہم کیا ۔ قازقستان دنیا میں یورینیم پیدا کرنے والے ملکوں میں سر فہرست ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ یورینیم کی کان کنی اور جوہری ایندھن کی پیداوار کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور قانون سازوں نے اس عمل کو تیز کرنے کے لیے قانون سازی بھی کی ہے۔ تاہم صدر بائیڈن نے اسی ہفتے گرینڈ کینین نیشنل پارک کے ارد گرد زمین کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک قومی یادگار کے قیام کا اعلان کیا ہے جو خطے میں یورینیم کی نئی کان کنی کو روک دے گا۔
امریکہ کی نیوکلیئر فیول سپلائی چین کو فنڈنگ کی فراہمی کے لیے قانون سازی متعارف کرانے والے ریپبلکن سینیٹر جان باراسو کہتے ہیں کہ ’’یہ بہت اہم ہے کہ ہم روس کی سرکاری اجارہ داری کے ادارے روساٹوم کو فنڈز دینا بند کر دیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں امریکہ کو جوہری ایندھن فراہم کرنے والوں کی مارکیٹ کو یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے۔‘‘
یورپ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بڑی حد تک مجبور ہے کیونکہ اس کے پانچ ممالک میں روس کے تیار کیے ہوئے 19 ری ایکٹر ہیں جو مکمل طور پر روسی جوہری ایندھن پر انحصار کرتے ہیں۔
فرانس کی روس سے افزودہ یورینیم پر انحصار کرنے کی بھی ایک طویل تاریخ ہے۔ گرین پیس نے اقوام متحدہ کے کامٹریڈ ڈیٹا بیس کا حوالہ دیتے ہوئے مارچ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ2021 میں روس سے افزودہ یورینیم کی فرانسیسی درآمدات 110 ٹن تھیں جو 2022میں بڑھ کر 312 ٹن ہو گئیں۔یورپی یونین کے شماریات کے دفتر یوروسٹیٹ کے مطابق یورپ نے گزشتہ سال روسی جوہری مصنوعات پر تقریباً 828 ملین ڈالر (تقریباً 750 ملین یورو) خرچ کیے ۔ان میں ایندھن کے عناصر، جوہری ری ایکٹر اور مشینری شامل ہے ۔
یورینیم پر انحصار ختم کرنے کے یورپی اقدامات
کچھ یورپی ممالک روس کے یورینیم پر انحصار ختم کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ یوکرین کے تنازع کے آغاز پر سویڈن نے روس سے جوہری ایندھن خریدنے سے انکار کر دیا تھا۔ فن لینڈ اپنے پانچ میں سے دو ری ایکٹروں کے لیے روسی ایندھن پر انحصار کرتا ہے لیکن اس نے روس کے ادارے روساٹوم کے ساتھ ایک نیا نیوکلیئر پاور پلانٹ بنانے کا معاہدہ ختم کر دیا۔
فن لینڈ کی انرجی کمپنی فورٹم نے بھی دو ری ایکٹروں کے لیے ایندھن کی فراہمی کے لیے یو ایس ویسٹنگ ہاؤس الیکٹرک کمپنی کے ساتھ ایک معاہدے کا اعلان کیا ہےکیونکہ روس کے ادارے روسا ٹوم کی ذیلی کمپنی ٹویل کے ساتھ اس کے معاہدےآئندہ سات برسوں میں ختم ہو جائیں گے۔
جمہوریہ چیک نے روس سےسپلائی کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنے واحد نیوکلیئر پاور پلانٹ کے لئے درکار ایندھن کی فراہمی کے واسطے ویسٹنگ ہاؤس اور فرانسیسی کمپنی فراماٹوم کی طرف رجوع کیا ہے۔ اس وقت یہ فراہمی ٹویل کمپنی کرتی ہے ۔ نئی سپلائی 2024 میں شروع ہونے کی توقع ہے۔ سلوواکیہ اور بلغاریہ بھی جوہری ایندھن کے لیے ٹویل پر انحصار کرتے ہیں اور انہوں نے بھی مختلف سپلائرزسے رابطہ کیا ہے ۔
SEE ALSO: زاپورژیا نیوکلیئر پاور پلانٹ کے گرد بارودی سرنگیں کتنی خطرناک ؟
ماہرین کی رائے
ماہرین کا خیال ہے کہ چیلنجوں کے باوجود روس سے یورینئیم کی برآمد روکنے کے عالمی دباو کی وجہ سے یورپ کے بیشتر حصوں کو روس کے ادارے روساٹوم پر انحصار ختم کرنا ہوگا۔ روس کے ماحولیاتی گروپ 'ایکو ڈیفنس' کے شریک چیئرمین ولادیمیر سلیویک نے کہا کہ ’’ ایندھن کی فراہمی کےحوالے سے موجود امکانات کی بنیاد پر یہ کہنا ٹھیک ہو گا کہ روسا ٹوم نے یورپی مارکیٹ کوگنوا دیا ہے۔‘‘
سلیویک نے کہا کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ہنگری اور فرانس اس مسئلے کو کیسے حل کریں گے۔ فرانس نے روس سے یورینیم کی فراہمی بند کرنے پر آمادگی ظاہر نہیں کی ہے۔
ہنگری کے روس کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور وہ اپنے چار ری ایکٹر والے نیوکلیئر پاور پلانٹ کے لیے ایندھن کی فراہمی کے لیے مکمل طور پر ماسکو پر انحصار کرتا ہے۔اب وہ اس پلانٹ میں روسا ٹوم کے مزید دو ری ایکٹرز کے ذریعے توسیع کی منصوبہ بندی کیے ہوئے ہے ۔ یہ ایک ایسا پروجیکٹ ہے جس کی مالی اعانت روسی بینک سے 10 بلین یورو لائن آف کریڈٹ سے ہو گی۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔)