دہشت گرد خوف و ہراس پھیلانا چاہتے ہیں: سرفراز بگٹی

اُن کا کا کہنا تھا کہ اس حملے کی تحقیقات تو کی جا رہی ہیں لیکن سرفراز بگٹی کے بقول بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ بم دھماکا ایک منصوبے کے تحت کیا گیا۔

کوئٹہ کے سول اسپتال میں ہونے والے مہلک بم دھماکے میں درجنوں افراد کی ہلاکت کے بعد صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ دہشت گرد ایسی کارروائیوں سے خوف و ہراس پھیلانا چاہتے ہیں۔

’’دہشت گرد تو یہ چاہتا ہے کہ معاشرے میں خوف و ہراس پھیلے اور (اس لیے ) وہ عام شہریوں پر حملہ کرتے ہیں اور یہاں تک کہ (وہ) اسپتالوں تک پہنچ گئے ہیں، اب وکیلوں کو مارتے ہیںِ اساتذہ کو بھی (نشانہ بناتے ہیں)اوراس کا مطلب ہے کہ وہ معاشرے میں خوف و ہراس پھیلانا چاہتے ہیں لیکن میں ان دہشت گردوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ نا تو حکومت بلوچستان اور نا ہی بلوچستان کے لوگ اس خوف کا شکار ہوں گے ہم اس غم اور غصہ کو اپنی طاقت میں بدلیں گے۔‘‘

Your browser doesn’t support HTML5

سرفراز بگٹی کی وائس آف امریکہ سے گفتگو

اُن کا کا کہنا تھا کہ اس حملے کی تحقیقات تو کی جا رہی ہیں لیکن سرفراز بگٹی کے بقول بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ بم دھماکا ایک منصوبے کے تحت کیا گیا۔

’’صبح ایک منصوبہ بندی سے ہائی کورٹ بار کے صدرکو ہدف بنا کر ہلاک کیا گیا اور جب ان کی میت سول اسپتال میں منتقل کی گئی تو وہاں بڑی تعداد میں لوگ اکھٹے ہوئے پھر وہاں یہ ایک سفاکانہ حملہ ہوا جس میں بہت معصوم لوگ مارے گئے، جن میں وکلاء ، سول سوسائٹی کے لوگ، عام شہری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار شامل ہیں۔‘‘

سرفراز بگٹی نے کہا کہ یہ ایک بزدلانہ حملہ تھا اور اس ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

’’وہ (صرف) وکلاء کو نہیں بلکہ وہ ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہں اور حال ہی میں ایک پروفیسر کو مارا گیا اسی طرح ایک وکیل کو پہلے بھی مارا گیا، ڈاکٹروں کو بلوچستان میں ہلاک کیا گیا۔۔۔ یہ بزدلانہ اقدام ہے اور ہم ایک لڑائی والے علاقے میں ہیں اور اس طرح کے واقعات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔‘‘

صوبائی وزیر داخلہ نے کہا کہ بلوچستان بار کونسل کے صدر بلال انور کانسی کی ہلاکت کے بعد جب لوگ بڑی تعداد میں اسپتال پہنچے تو سکیورٹی بڑھا دینی چاہیئے تھی۔

’’ایک بات تو بالکل ٹھیک ہے کہ اس طرح کے حالات میں لوگوں کو اکٹھا نہیں ہونا چاہیئے تھا، لیکن پھر بھی اگر وہ اکٹھے ہو گئے تھے تو پھر سکیورٹیفراہم کی جانے چاہیئے تھی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے اس (معاملے کی)انکوئری کا حکم دیا ہے اور اس (کمیٹی)کی سربراہی میں کر رہا ہوں اور ہم نے 24 گھنٹوں کے اندر اس کی رپورٹ دینی ہے اور اس میں اگر کوئی غفلت مرتکب پایا گیا تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘‘

اُن کا کہنا تھا کہ صوبے میں سکیورٹی کے انتظامات کا ازسر نو جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ کسی بھی طرح کی کمی کو دور کیا جا سکے۔