بن لادن کی ہلاکت، سیاسی و عوامی ردعمل

بن لادن کی ہلاکت، سیاسی و عوامی ردعمل

القاعدہ کے رہنماء اُسامہ بن لادن کی ایک فوجی کارروائی میں ہلاکت پر تجزیہ کاروں ، سیاستدانوں اور طالب علموں کا کہنا ہے کہ اس کے دور رس نتائج نکلیں گے اور کاکول جیسے علاقے میں القاعدہ کے انتہائی مطلوب رہنماء کی ہلاکت سے ان خدشات کو تقویت ملے گی کہ دہشت گردوں نے شہری علاقوں میں بھی اپنی قیام گاہیں بنا رکھی ہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے چیئرمین سلیم سیف اللہ خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ اُنھیں اس بات پرحیرانی ہوئی کہ اُسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں کاکول اکیڈمی کے قریب مقیم تھا۔ ”ہماری جو انتظامیہ اور انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں اُن سے یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہئیے تھا کہ یہ کیسے ایبٹ آباد میں رہ رہا تھا اور پورا کمپاؤنڈ بنایا ہوا تھا۔ اس تناظر میں سوالات تو اُٹھیں گے اور اس کی تحقیقات ضرور ہونی چاہئیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیاں سب کے سامنے ہیں اور دنیا کا موقف چاہے کچھ بھی ہو پاکستان کو نیک نیتی سے اپنا کام کرنا چاہیئے“۔

سی آئی اے کا جاری کردہ ایبٹ آباد میں کمپاؤنڈ کا نقشہ

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے کہ ”بن لادن کو اُنھوں نے مار دیا ہے تو اس اب جنگ کا جواز نہیں بنتا ، اب باقی جو دہشت گرد ہیں اُن کے خلاف کارروائیوں کی ذمہ داری افغانستان اور پاکستان کی حکومت کو دے دینی چاہیئے“۔

">

تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ باوجود اس کہ امریکہ کے لیے بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کے خطرات موجود رہیں گے لیکن فوری طور پر اس کامیاب کارروائی سے امریکی افواج کے حوصلے بلند ہوں گے خاص طور پر افغانستان میں وہ زیادہ ’دلیری‘ سے اپنی کارروائیاں کریں گی۔

حسن عسکری کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کے اثرات امریکہ کی اندرونی سیاست پر بھی پڑیں گے ۔ ” امریکہ کے اندر اوباما کی انتظامیہ کو اس وقت سپورٹ(مدد) کی بڑی ضرورت تھی اور وقتی طور پر یہ حاصل ہو گئی ہے لیکن امریکی انتظامیہ پرملک کے اندر سے یہ د باؤ برقرار رہے گا کہ افغانستان سے افوا ج کے انخلا کا جو پلان (منصوبہ)امریکہ نے جاری کیا ہے اس کے مطابق جولائی سے واپسی کا آغاز کیا جائے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جہاں تک اقتصادیات کا تعلق ہے امریکہ کے اندر فوری طور پرتبدیلی نہیں ہوگی “۔

اُنھوں نے کہا کہ اسامہ بن لادن کے بعد یہ مسئلہ بھی ہو گا کہ اب القاعدہ کی قیادت کون کرے ۔ ”پہلے تو القاعدہ میں قیادت کا مسئلہ ہوگا اگرچہ القاعدہ کی کوئی سنٹرلائز(مرکزی) کمیٹی نہیں ہے اور مختلف ملکوں میں مقامی گروپ القاعدہ کے نظریات پر عمل درآمد کرتے ہیں اور میرے خیال میں اسی طرح وہ کام کرتے رہیں گے۔ ممکنہ ردعمل کے بارے میں کہوں گا کہ القاعدہ براہ راست تو پاکستان میں کارروائیاں نہیں کررہی ہے ، جو ان کے ہمدرد ہیں ، تحریک طالبان پاکستان یا افغانستان کے طالبان تو وہ یہاں خودکش حملے کرنے کی کوشش کریں گے جس کے لیے سکیورٹی انتظامات بہتر کرنے کی ضرورت ہے“۔

تجزیہ کار رسول بخش ریئس کا کہنا ہے کہ ”اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کے مارے جانے کے بعد ہمارے علاقوں میں یہ تنظیم(القاعدہ) کمزور پڑجائے گی لیکن اس کے مکمل خاتمے میں وقت لگے گا۔ دہشت گردی کے خلاف یہ ایک بڑی کامیابی ضرورہے، لیکن اسے آگے بڑھانے کے لیے مزید کام کرناہوگا“۔

دفاعی اُمور کے ماہر بریگیڈئیر ریٹائرڈ محمود شاہ کا کہنا ہے کہ کامیاب آپریشن میں اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستان میں سکیورٹی کے انتظامات کو فوری طور پر بڑھا دینا چاہیئے ۔ ”دہشت گردوں کے جو ہمدرد اور اتحادی ہیں وہ بدلہ لینے کے لیے کوئی بڑی کارروائی کرسکتے ہیں اور ان کے لیے سب سے آسان ہدف پاکستان ہے۔ جہاں تک طویل المدتی اثرات کا تعلق ہے تو القاعدہ کمزور ہوگی کیونکہ اسامہ بن لادن تنظیم کی پہچان بن چکا تھا، گو کہ آپریشنل کنٹرول ایمن الازواہری کے پاس ہیں لیکن میرے خیا ل میں اس کو(الازواہری) وہ مقام حاصل نہیں جو اُسامہ کو تھا۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبا و طالبات نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اب امریکہ پاکستان پر دباؤ میں اضافہ کرے گا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کو تیز کیا جائے ۔ ہسٹری (تاریخ ) کے ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم محمد فیصل کا کہنا ہے کہ ”پہلے یہ شبہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ دہشت گردوں نے پاکستان میں پناہ لے رکھی ہے اور اس کی تصدیق ہوگئی ہے اب امریکہ اوردوسرے ممالک پاکستان پر دباؤ بڑھائیں گے کہ دہشت گرد یہاں (پاکستان میں) ہیں۔ ہمیں زیادہ حیرانگی ہوئی کہ ایک حساس علاقے میں حملہ کر کے اسامہ بن لادن کو مارا گیا“۔

ایک اور طالب علم اکبر خان کا کہنا ہے کہ ”ہماری فوج پر ہی سوالات اُٹھائے جارہے ہیں کہ وہ(اسامہ بن لادن) پاکستان میں کیا کر رہا تھا۔ امریکہ بھی کافی عرصہ سے کہہ رہا ہے کہ اسامہ پاکستان میں ہے لیکن اگر اُسے مروانا تھا تو قبائلی علاقوں میں ہی مار دیا جاتا، اب اس کا پاکستان پر بہت بر ا اثر پڑے گا“۔

شعبہ بین الاقوامی تعلقات عامہ کی طالبہ اسما علی کا کہنا ہے کہ اُنھیں توقع ہے کہ موجودہ بین الاقوامی حالات کے تناظر میں مغربی دنیا پاکستان کی مدد کرے گی ”کیونکہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں طالبان کے خاتمے کے لیے فوجی کارروائیاں ہو رہی ہیں“۔

طالب علم تصور اقبال کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں ایک کارروائی کے دوران ہلاکت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے دہشت گرد ہمارے شہری علاقوں میں بھی موجود ہیں۔” کہا جاتا تھا کہ یہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں اور اب یہ بات ثابت ہوتی جارہی ہے یہاں یہ لوگ موجود ہیں اور اب اس کا نقصان یہ ہو گا کہ ڈومور (مزید کارروائیوں) کے مطالبے میں تیزی آ جائے گی اورپاکستان سے کہا جائے گا کہ شہری علاقوں میں بھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیے جائیں۔ دوسرا نقصان یہ ہوگا کہ اُسامہ بن لادن کے مارے جانے کے بعد دہشت گرد حملے ہو سکتے ہیں جن کا نشانہ پاکستانی شہری بنیں گے“۔