پناہ گزینوں کا عالمی دن اور پاکستان

پاکستان سے اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزين يو اين ايچ سي آر کے پبلک انفارميشن آفيسر، جناب تيمور احمد نے وائس آف امريکہ کي اردو سروس کو بتايا کہ اسوقت پاکستان ميں موجود اندراج شدہ افغان پناہ گزينوں کي تعداد تقريبا 17 لاکھ ہے۔ جبکہ ملک کے اندر گھر بدر خاندانوں کي تعدادبھي ڈيڑھ لاکھ سے زيادہ ہے۔

پناہ گزینوں کا عالمی دن ہر سال 20جون کو منايا جاتا ہے، پاکستان کے لےء دنيا کے کسي بھي ملک سے زيادہ ہےجہاں نہ صرف لاکھوں کي تعداد ميں افغان پناہ گزین زندگي گزار رہے ہيں بلکہ دہشتگردي اور ا سکے خلاف جنگ کي وجہ سے ملک کے اندر لاکھوں افراد بھي پناہ گزينوں کي زندگي بسر کرنے پر مجبور ہوے ہيں ايک طرف ان افغان پناہ گزینوں کو ملک کي بگڑتي ہوي صورتحال اور جرائم ميں اضافے کا ذمہ دار اور ملک کي معيشت پر بوجھ قرار ديا جاتا ہے تو دوسري جانب ملک ميں موجود ان بے گھر لوگوں کي جانب سے ، ہراساں کرنے ، بنيادي سہولتيں نہ ملنے اور روزمرہ کي زندگي ميں بے شمار مثال کا سامنا کرنے کي شکايات بھي عا م طور پر سننے ميں آتي ہيں۔

پاکستان سے اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزين يو اين ايچ سي آر کے پبلک انفارميشن آفيسر، جناب تيمور احمد نے وائس آف امريکہ کي اردو سروس کو بتايا کہ اسوقت پاکستان ميں موجود اندراج شدہ افغان پناہ گزينوں کي تعداد تقريبا 17 لاکھ ہے۔ جبکہ ملک کے اندر گھر بدر خاندانوں کي تعدادبھي ڈيڑھ لاکھ سے زيادہ ہے۔

معروف ما ہر ٕمعاشيات اور تجزيہ نگار ، ڈاکٹر شاہد صديقي نے وائس آف امريکہ کي اردو سروس کوبتايا کہ پاکستان ميں افغان پناہ گزینوں کي طويل مدت کي موجودگي نت نئے مسائل کو جنم دے رہي ہے ۔ انہوں نے الزام لگايا کہ يہ لوگ نہ صرف پاکستان کي معيشت پر بوجھ ہيں بلکہ انکے الفاظ ميں ملک ميں غير قانوني سرگرميوں اور کاروبار ميں ملوث ہيں ۔ا نکا مزيد کہنا تھا کہ جرائم ميں افغان پناہ گزینوں کے ملوث ہونے کي وجہ سے پاکستان کو اب تک 90 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے کيونکہ انکے الفاظ ميں ان وارداتوں کي وجہ سے معيشت کي سرگرمياں متا ثر ہورہي ہيں ، لوگ سرمايہ کاري سے اجتناب کررہے ہيں اور سیکيورٹي کے اخراجات بڑھ رہے ہيں، چنانچہ حکومت ترقياتي منصوبوں اور صحت اور تعليم جيسے اہم منصوبوں کے لئے رقم مختص کرنے ميں ناکام رہي ہے۔ انکا مزيد کہنا تھا کہ ايک حکمت عملي کے تحت افغان پناہ گزينوں کی وطن واپسي کا عمل شروع کر دينا چاہئے۔

دوسري جانب ، صوبہ خيبر پختونخواہ ميں امن تحريک سے منسلک ڈاکٹر ادريس کمال نے ڈاکٹر شاہد صديقي سے اتفاق نہ کرتے ہوے کہا کہ ملک کي سماجي ، معاشي اور اقتصادي بدحالي کے ذمہ دار افغان پناہ گزین نہيں بلکہ بقول انکے خود پاکستان کي خارجہ اور داخلي پاليسياں ہيں۔ انہوں نے خيبر پختونخواہ اور اسکے مضافاتي علاقوں ميں قائم پناہ گزین کيمپوں کے ہزاروں افغان شہريوں کو درپيش شديد مشکلات کي جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ان کو نہ صرف بنيادي سہولتوں تک رسائي ميں مشکلات کا سامنا ہے بلکہ بقول انکے پوليس اہلکاروں کي طرف سے بلاوجہ ان کو ہراساں بھي کيا جاتا ہے۔

ايک افغان پناہ گزین صحافي نے نام ظاہر نہ کرنے کي شرط پرو ائس آف امريکہ کو بتايا کہ اسوقت ہزاروں کي تعداد ميں افغان پناہ گزین جيلوں ميں ہيں۔ انکا کہنا تھاکہ ان کی واپسي کي ڈيڈ لائن کے اعلان کے ساتھ ہي ، پوليس اہلکار افغان پناہ گزینوں کو ہراساں کرنا شروع کر ديتے ہيں اور ان سے بھاري رقوم وصول کرتے ہيں۔ انکا يہ بھي کہنا تھا محرم الحرام کا مہينہ شروع ہوتے ہي ، کوہاٹ ٹنل کے دونوں جانب افغان مہاجرين کا آنا جانا کوئي وجہ بتائے بغير بند کر ديا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے نہ صرف افغانستان بلکہ پوري دنيا کو غلط پيغام ملتا ہے۔

خيبر پختونخواہ کي صوبائي حکومت نے غير قانوني طور پر مقيم ان افغانوں کو 25 مئي تک جبکہ قانوني طور پر مقيم پناہ گزینوں کو 15دسمبر تک اپنے وطن واپس جانے کي مہلت دي ہے۔ حکمراں جماعت اے اين پي کے صوبائي جنرل سيکٹري ، جناب ارباب محمد طاہر نے وائس آف امريکہ کو ايک انٹرويو ميں بتايا کہ يہ ڈيڈ لا ئن صرف افغان ٕپناہ گزینوں کے لئے نہيں بلکہ ملک اور خاص طور پر فاٹا ميں موجود ان غير ملکي لوگوں کے لئے بھي ہے جو انکے بقول دہشتگردي ميں ملوث ہيں۔25 مئي کے بعد حراست ميں لئے گئے تقريبا دو ہزار افغان پناہ گزینوں کا ذکر کرتے ہوئے ، ارباب طاہر کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف قانوني کاروائي کي جائے گي تاہم انکا کہنا تھا کہ وہ افغان مہاجرين کو اپنا بھائي خيال کرتے ہيں اور يہ کہ صوبے ميں موجود مختلف کيمپوں کي بندش کے حوالے سے تاحال کوئي فيصلہہ نہيں کيا گيا ہے۔

اطلاعات کے مطابق ، افغان مہاجرين کي نصف سے زائد آبادي پشاور اور اسکے مضافاتي علاقوں ميں رہائش پذير ہے۔ ان مہاجرين کا تعلق پاکستان کی سرحد کے ساتھ واقع افغان صوبے پکتيکا ، پکتيا، خوست اور گرديز سے ہے۔

بين الا قوامي شہرت يافتہ امريکي اداکارہ انجلينا جولي نے جو عالمي ادارہ برائے مہاجرين UNHCR کي سابق خير سگالي سفير ہيں اور پناہ گزينوں کے لئے اقوام متحدہ کے ہائي کشنر کے لئے ايک خصوصي ايلچي ہيں ، پاکستان کي طرف سے افغان پناہ گزینوں کي ميزباني سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان وہ ملک ہے جو اسوقت اپنے ہي ملک کے لاکھوں بے گھر افراد کے چيلنج کا سامنا کرنے کے باوجود ، 17 لاکھ افغان مہاجرين کي ميزباني کر رہا ہے اور گزشتہ 30 برسوں ميں کئ لاکھ افغان پناہ گزینوں کي کي ميزباني کر چکا ہے۔

انجلینا جولی پاکستان ميں موجود پناہ گزین کيمپوں کا آنکھوں ديکھا حال بيان کرتے ہوئے کہتي ہيں کہ ان پناہ گزینوں نے جن کے ساتھ ميں نے وقت گزارہ ، ميري زندگي بدل کر رکھ دي ہے ، آٹھ سالہ لڑکي جس نے اپنے بھائي کي زندگي بچائي ، مجھے بتايا کہ بہادري کيا ہے۔ پاکستان ميں ايک حاملہ خاتون نے مجھےسکھايا کہ ممتا کيا ہے ۔ ايک اپا ہج لڑکے کے چہرے پرمسکراہٹ نے مجھے بتايا کہ آہني عزم کيا ہے۔

انساني حقوق کي تنظیموں نظر ميں يہ ايک انساني مسئلہ ہے اور اسے بين الا قوامي برادري کو اسي طور پر ديکھتے ہوئے حل کرنے کي کوشش کرني چاہيں اور ا سے ملکوں کے درميان مفادات کي جنگ کي بھينٹ نہيں چڑھنا چاہئيے ۔ ان کے مطابق يہ ايک مشترکہ انساني الميہ ہے۔