دہشت گردی کے مقابلے کے لیے فوج کا استعمال کم سے کم کیا جائے: آرمیٹج

دہشت گردی کے مقابلے کے لیے فوج کا استعمال کم سے کم کیا جائے: آرمیٹج

رچرڈ آرمٹیج ایک ایسے وقت میں امریکہ کے نائب وزیر خارجہ رہے جب امریکی قوم اپنی سر زمین پر دہشت گردی کے ہاتھوں نائین الیون کے سانحے اور اس کے اثرات سے گزر رہی تھی ۔سابق نائب امریکی وزیرِ خارجہ رچرڈ آرمٹیج کا کہنا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک کو آج بھی القائدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے حملوں کا خطرہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کہ دہشت گردی کا مقابلہ انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کیا جانا چاہیے اور فوج کا استعمال صرف انتہائی ضرورت کی موقع پر ہی کیا جائے۔ انہوں نے یہ باتیں وائس آف امریکہ سے ایک انٹرویو میں کہیں۔

اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد کی صورت حال کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں رچرڈ آرمٹیج کا کہناتھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ بن لادن کی ہلاکت تمام دہشت گردوں کے لیے ایک پیغام تھا کہ آپ ہمیشہ کے لیے چھپ نہیں سکتے۔ ان کا کہناتھا کہ دہشت گردی ہمیں اپنا طرز زندگی بدلنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ مگر دہشت گردی کے خلاف ہمارا غیر معمولی ردعمل ہمارے طرزِ زندگی کو بدل سکتا ہے۔ اور کچھ عرصے سے مجھے خدشہ ہے کہ شاید ہمارا ردِ عمل غیر معمولی رہا ہو ۔

http://www.youtube.com/embed/Nn0dK3n5r28

بعض افریقی ممالک میں القاعدہ کے پھلنے پھولنے اور ان کے خلاف افغانستان جیسی ممکنہ کارروائی سے متعلق سوال پر سابق نائب امریکی وزیر خارجہ کا کہناتھا کہ ہر موقع پر بھرپور فوجی طاقت کا استعمال مناسب نہیں۔ دہشت گردی کا مقابلہ انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کیا جانا چاہیے۔

گوانتاموبے کے فوجی حراستی مرکز کے بارے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں آرمیٹج کا کہناتھا کہ ان کے خیال میں اس قیدخانے کی بندش کا امکان کم ہے۔

عراق پر حملے کے امریکی فیصلے کےبارے میں رچرڈ آرمیٹج کا کہناتھااس سلسلے میں ان کے خیالات ملے جلے ہیں۔ کیونکہ اس جنگ میں چار ہزار امریکی فوجی ہلاک ہوئے اور بڑی تعداد میں عراقی شہری بھی لقمہ اجل بنے جس پر انہیں دکھ ہے۔ مگر ان کا کہناتھا کہ دوسری جانب اس جنگ کا مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اب اس ملک میں عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کا احترام کیاجاتا ہے اور اب عراق سے اس کے پڑوسیوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

عراق سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار، جسے جواز بنا کر امریکہ نے حملہ کیاتھا برآمد نہ ہونے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں سابق امریکی نائب وزیر خارجہ کا کہناتھا کہ اس میں زیادہ عمل دخل بین الاقوامی انٹیلی جنس اداروں کا ہے۔

ان کا کہناتھاکہ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ امریکی انتظامیہ کے ہر رکن کا یہ خیال تھا کہ صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیارموجود ہیں۔ ہم یہ نہیں سمجھ سکے کہ ایسے ہتھیار موجود نہ ہونے کے باوجود عراق نے جنگ کا خطرہ کیوں مول لیا۔ مگر صدام حسین کی پھانسی سے پہلے ہونے والی تحقیقات سے ہمیں پتا چلا کہ انہیں عالمی برادری کی طرف سے حملے کا ڈر نہیں تھا بلکہ وہ ایران سے خوفزدہ تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ ایران کو یہ پتا چلے کہ ان کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہیں۔