پاکستان کے چین سے ملحقہ علاقے گلگت بلتستان میں حالیہ دنوں میں خود کشی کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے جس کے بعد حکام نے نفسیاتی مسائل اور غربت سے دوچار گھرانوں کے لیے کونسلنگ کے ہنگامی پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
گلگت بلتستان کے محکمۂ صحت کے ساتھ تعاون کرنے والے غیر سرکاری ادارے امیون کمیون ریسرچ ڈویلپمنٹ (آئی سی آر ڈی) کے ڈائریکٹر عنایت بیگ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ منصوبہ علاقے میں خود کشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد شروع کیا گیا ہے۔
عنایت بیگ کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ ایسے وقت میں شروع کیا گیا جب ذرائع ابلاغ میں گلگت بلتستان بالخصوص ضلع غذر میں خودکشی کے حیران کن اعداد وشمار سامنے آئے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ 2021 اور 2022 کے پہلے پانچ ماہ کے دوران گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں خودکشی کے 225 واقعات میں سے 132 صرف ضلع غذر میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ اسی بنیاد پر ان کے ادارے نے محکمۂ صحت اور ضلع غذر کے نوجوانوں کی تنظیم کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر گھر گھر جا کر لوگوں میں آگاہی کی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
گلگت بلتستان کے سینئر صحافی رجب قمر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گلگت بلتستان میں 2022-2021 کے دوران خود کشی کرنے والوں میں 116 مرد اور 110 خواتین شامل ہیں۔
اُن کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ سب سے زیادہ خودکشیاں ضلع غذر میں 132، ضلع گلگت میں 46 ،ہنزہ میں 26 ، نگر میں دو، دیامر میں چھ، استور میں 5، گانچھے میں 2، شگر میں 6 اور ھرمنگ میں خود کشی کا ایک واقعہ رپورٹ ہوا۔
البتہ پولیس حکام نے اعداد و شمار کو کم بتاتے ہیں۔
عنایت بیگ نے بتایا کہ گزشتہ 40 روز کے دوران مختلف علاقوں میں خودکشی کے 16 واقعات ہوئے ہیں اور خودکشی کرنے والوں کی عمریں15 سے 29 سال کے درمیان ہیں۔
پشاور میں بچوں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم رکن عمران ٹھکر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 2016 میں ملک بھر میں خودکشی کے 123 واقعات میں گلگت بلتستان میں صرف 12 واقعات ہوئے تھے جو 2017 میں بڑھ کر 25 ہو گئے۔ جب کہ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں 2020 میں خود کشی کے 74 واقعات رپورٹ ہوئے۔
تازہ ترین واقعات
بدھ کو قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے بی ایس کے طالبِ علم محمد ظاہر نے اپنی موٹرسائیکل کو ذوالفقار آباد پل پر کھڑا کرکے دریا میں چھلانگ لگا دی۔
پولیس حکام نے رابطے پر بتایا کہ رواں ماہ جون کے دوران ہونے والے واقعات میں ضلع غذر کے گاوں پونیال میں جماعت نہم کی طالبہ نے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کر لی۔
ضلع نگر کے گاؤں غلمت سے تعلق رکھنے والے سجاد حسین نامی نوجوان نے مبینہ طور پر راکا پوشی ویو پوائنٹ پُل سے نالے میں کود کر جان دے دی ۔
ضلع ہنزہ کے علاقے شناکی مایو سے تعلق رکھنے والے شاہد عباس برچہ نامی نوجوان نے گلے میں پھندا ڈال کر خود کشی کرلی۔
گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے صحافی فہیم اختر کا کہنا ہے کہ بہت سے دور راز دیہات میں والدین یا دیگر قریبی رشتہ دار خود کشی کے واقعات کو چھپانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔
وجوہات
ماہرین خودکشی کے واقعات کی وجہ مختلف عوامل کو قرار دیتے ہیں۔
گلگت بلتستان اسمبلی کی سابق خاتون رکن رانی عتیقہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت گلگت بلتستان میں شرح تعلیم بہت زیادہ ہے مگر یہاں غربت اور بے روزگاری بھی بہت زیادہ ہے۔مردوں کی نسبت خواتین زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔
رانی عتیقہ کے بقول زیادہ تعلیم یافتہ لڑکیوں میں احساسِ محرومی اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ان کی شادیاں ان سے کم تعلیم یافتہ لڑکوں کے ساتھ ہوتی ہے۔
رانی عتیقہ اور عنایت بیگ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی حکومت یا حکومتی ادارے نے گلگت بلتستان کے لوگوں میں بڑھتے ہوئے احساس محرومی پر قابو پانے کے لیے کوئی حکمتِ عملی مرتب نہیں کی۔ اسی طرح اس خطے کے تعلیم یافتہ مرد و خواتین کو ملک کے دیگر علاقوں میں کام کرنے کے مواقع فراہم نہیں کیے گئے۔
رانی عتیقہ نے بتایا کہ علاقے کی پسماندگی اور جغرافیائی محل وقوع کے باعث یہاں کے لوگوں بالخصوص نوجوانوں میں احساس محرومی اور ڈپریشن دن بدن بڑھتا جا رہا ہے جب کہ لوگوں کی ضروریات زندگی پوری نہیں ہو رہیں۔
اُن کے بقول گھریلو تشدد کے واقعات میں مرنے والی خواتین کو بھی خود کشی کا رنگ دیا جاتا ہے۔ حکومت یا حکومتی اداروں کی جانب سے کسی قسم کے عملی اقدامات نظر نہیں آتے۔
اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس رجحان کو روکے جب کہ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ لڑکے اور لڑکیوں میں فرق نہ سمجھیں اور دونوں کو مساوی مواقع دیں۔
پشاور کے ماہر نفسیات ڈاکٹر افتخار حسین کا کہنا ہے کہ خودکشیوں کی وجوہات میں نفسیاتی بیماریوں کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ مختلف معاشی، معاشرتی اور صحت کے مسائل سے دوچار لوگ وقت کے ساتھ ساتھ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور اُنہیں خود کشی ہی واحد حل نظر آتی ہے۔
حکومت کا مؤٔقف
گلگت بلتستان کے وزیراعلی کے مشیر برائے قانون سید سہیل عباس نے وائس آف امریکہ کے سوالات جواب میں خودکشیوں کی اس لہر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ اسمبلی نے اس معاملے میں کمیٹی قائم کی تھی۔
اُن کے بقول "ہم نے کمیٹی کی رپورٹ اور سفارشات طلب کر لی ہیں ان سفارشات کو دیکھیں گے اور ان کو مدِنظر رکھتے ہوئے اقدامات اٹھائیں گے۔ خودکشی کے کیسز میں غیرت کے نام پر قتل کے معاملات بھی ہوتے رہے ہیں جس کے لیے حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کسی بھی خودکشی کے کیس میں پوسٹ مارٹم لازمی کرایا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ مسلسل کیسز سامنے آرہے ہیں جس کی بنیاد پر کوئی ایک رائے قائم نہیں کی جاسکتی ہے، حکومت ہر زاویے سے ان معاملات کو دیکھے گی اور ہنگامی اقدامات اٹھائے گی۔