اصلی روبوٹس کی اصلی لڑائی

مقابلے میں حصہ لینے والا امریکی روبوٹ

اس لڑائی میں امریکہ اور جاپان کی دو معروف ٹیکنالوجی کمپنیوں نے اپنے تیار کردہ روبوٹ میدان میں اتار کر اپنی ٹیکنالوجی کی جانچ پرکھ کی اور یہ جائزہ لیا کہ دیو ہیکل روبوٹس کی تیار ی  میں انہیں کن پہلوؤں پر خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

آپ نے سائنس فکشن فلموں میں دیو قامت رو بوٹس کی لڑائیاں دیکھی ہوں گی، جو بڑی بڑی عمارتوں کو گراتے، گاڑیوں کو اپنے بھاری بھرکم قدموں تلے روندتے ہوئے ایک دوسرے کو شکست دینے کے لیے اپنے تمام ہتھیار آزما رہے ہوتے ہیں، اور جنگ کا میدان بننے والے شہر کے باسی سراسیمگی کے عالم میں اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔

ایک ایسا ہی منظر جاپان کے حال ہی میں جاپان کی متروک سٹیل مل میں دیکھنے میں آیا جہاں دو قوی ہیکل اور عظیم الجثہ روبوٹس نے دن بھر کئی گھنٹوں تک ایک دوسرے کا مقابلہ کیا۔ اپنی روایتی تلواروں کے وار کیے، اپنی توپیں اور لیزر گنز استعمال کیں، ایک دوسرے کو دھکے دیے اور بالآخر ایک روبوٹ اپنے دوسرے حریف کو ناکارہ بنا کر یہ مقابلہ جیت گیا۔

یہ کوئی عام سا تفریحی مقابلہ نہیں تھا بلکہ اس لڑائی میں امریکہ اور جاپان کی دو معروف ٹیکنالوجی کمپنیوں نے اپنے تیار کردہ روبوٹ میدان میں اتار کر اپنی ٹیکنالوجی کی جانچ پرکھ کی اور یہ جائزہ لیا کہ دیو ہیکل روبوٹس کی تیار ی میں انہیں کن پہلوؤں پر خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ان میں سے ایک روبوٹ امریکی ریاست کیلی فورنیا میں قائم کمپنی ’میگا باٹس‘ نے بنایا تھا۔ ٹینک کی طرح چین پر چلنے اور کرین کی طرح گھومنے کی صلاحیت رکھنے والے اس روبوٹ کا وزن 12 ٹن تھا اور اسے حرکت دینے کے لیے 430 ہارس پاور کی موٹر لگائی گئی تھی۔ جب کہ اس کے مقابلے میں جاپان نے جو روبوٹ میدان میں اتارا تھا، اسے بھاری مشینری بنانے کے کارخانے سوئی دوباشی میں تیار کیا گیا تھا۔ تاہم وزن اور قوت میں اس کا امریکی روبوٹ سے کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ جاپانی روبوٹ کا وزن ساڑھے چھ ٹن اور طاقت محض 87 ہارس پاور تھی۔ اس لحاظ سے یہ بلی اور چوہے کا مقابلہ تھا۔

امریکیوں نے اپنے روبوٹ کو ایگل پرائم کا نام دیا تھا جب کہ جاپانیوں نے اپنے روبوٹ کا نام رکھا تھا ’کرتاس ‘۔

دونوں روبوٹس نے یہ لڑائی اسی انداز میں لڑی جس طرح بچوں کی پسندیدہ ٹیلی وژن سائنس فکشن سیریز ’ پاور رینجرز‘ میں روبوٹ حصہ لیتے ہیں۔ پاور رینجرز کے روبوٹس کو ان کے اندر بیٹھے ہوئے مہم جو بچے کنٹرول کرتے ہیں اور کمانڈ دیتے ہیں۔

امریکی اور جاپانی روبوٹس کی لڑائی کا ایک منظر

دیو ہیکل امریکی اور جاپانی روبوٹس میں بھی پائلٹ کے لیے خصوصی سیٹ اور ایک بڑا کنٹرول پینل موجود تھا جس پر نصب رنگ برنگی لائٹس ’ سٹار وار کے خلائی جہاز کے کنٹرول روم کی طرح جل بجھ رہی تھیں۔

پرانی اسٹیل مل میں، جہاں جابجا لوہے کے پائپ اور دوسرا ناکارہ سامان بکھرا تھا، دونوں روبوٹس ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے عزم سے سامنے آئے۔ طبل جنگ بجنے کے بعد ایک دوسرے پر حملے شروع ہوئے اور دونوں روبوٹس نے اپنے اپنے ہتھیار اور داؤ پیچ آزمائے۔

شروع کے مراحل میں جاپانی روبوٹ کا پلڑا بھاری رہا۔ کرتاس اپنا وزن کم ہونے کے باعث بہت پھرتیلا ثابت ہوا اور وہ نہ صرف امریکی روبوٹ کے حملوں سے خود کو بچانے میں کامیاب رہا بلکہ تاک تاک کر کاری ضربیں بھی لگاتا رہا۔

ابتدائی گھنٹوں میں ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ چھوٹے سائز کا جاپانی روبوٹ ، بھاری بھرکم امریکی روبوٹ کی اسی طرح چاروں شانے چت کر دے گا جس طرح آٹو انڈسٹری میں چھوٹی جاپانی کاروں نے بڑے سائز کی طاقت ور امریکی کاروں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے اور جاپانی کاریں کئی عشروں سے امریکی منڈی میں راج کر رہی ہیں۔

لیکن جاپانی روبوٹ کے پھرتیلے پن پر امریکی روبوٹ کی طاقت غالب آ گئی اور شام ہوتے ہوتے ’ ایگل پرائم ‘ نے اسے مقابلے سے باہر کر دیا۔

جاپانی پائلٹ کوگوروکراتا نے اپنے روبوٹ کو بھاری نقصان پہنچنے کے شکست تسلیم کر لی اور مقابلے سے دست بردار ہونے کا اعلان کر دیا۔

امریکی روبوٹ کے پائلٹ گوئی کیول کینٹی نے پہلا روبوٹک مقابلہ جیتنے پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ روبوٹس کے لیے بھی کھیلوں کے گروپ بنائے جائیں اور قواعد و ضوابط مرتب کیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح باکسنگ اور کشتیوں میں وزن کی بنیاد پر کھلاڑیوں کے گروپ بنائے جاتے ہیں ، اسی طرح روبوٹ کے وزن اور ہارس پاور کی مطابقت سے ان کی درجہ بندی کی جائے ۔ اور روبوٹس کا مقابلہ اپنے ہی گروپ میں ہو۔

اب آپ کو پتا چل گیا ہوگا کہ یہ ہیوی ویٹ روبوٹ فوج کے لیے نہیں بلکہ ان کھلاڑیوں کے لیے تیار کیے گئے ہیں جنہیں لڑائی لڑائی کھیلنے کا شوق ہے۔

اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو بہت ممکن ہے کہ آئندہ عشروں میں کرکٹ ، فٹ بال اور ہاکی جیسے مقبول کھیل بھی میدان میں روبوٹ کھیلتے نظر آئیں گے جنہیں اصل کھلاڑی باہر بیٹھ کر ریموٹ سے کنٹرول کر رہے ہوں گے۔

انسانی جانوں کے تحفظ کے پیش نظر شائقین کو اسٹیل مل کے اندر جا کر روبوٹس کی جنگ دیکھے کی اجازت نہیں دی گئی۔ لیکن روبوٹس سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے فولادی قوت اور کمپیوٹر کی مہارت کی یہ لڑائی یوٹیوب اور فیس بک پر لائیو ٹیلی کاسٹ کی گئی جسے دنیا بھر میں لاکھوں افراد نے دیکھا۔

اگر آپ کو بھی یہ جاننا چاہیں کہ اصلی روبوٹ اصل میں کیسے لڑتے ہیں تو یوٹیوب پر اس کی ریکارڈنگ آپ کی منتظر ہے۔