روس : جنگلات میں لگی آگ بجھانے کے عمل میں دشواریاں

روس میں قیامت کی گرمی پڑ رہی ہے اور ملک کے جنگلوں میں ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے۔ سرکاری عہدے داروں کا کہنا ہے کہ 52 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اورہزاروں گھراورملک بھرکی فصلیں آگ کی نذر ہو گئی ہیں۔ روس کی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ بعض مقامات پر آگ قابو سے باہر ہو گئی ہے۔ عام شہری اپنی جائیداد اور سامان کو بچانے کی دیوانہ وار کوشش کر رہے ہیں۔

اینیاکریلووا کے چہرے پر کالک کی تہہ چڑھی ہوئی ہے، ان کے کپڑے اور بال پسیینے اور راکھ میں اٹے ہوئے ہیں، اور چہرے پر تھکن اور اداسی کے آثار نمایاں ہیں۔ وہ اپنے گھرانے کی جائیداد کو بے بسی سے دیکھ رہی ہیں جب کہ آگ کے شعلے صرف 91 میٹر دوررہ گئے ہیں۔ ان کے خاندان کے گرمیوں کے گھر اور آگ کے شعلوں کے درمیان ایک میٹر سے بھی کم چوڑی کھائی ہے جو انھوں نے خود اپنے والد کے ساتھ مِل کر کھودی ہے۔وہ بتاتی ہیں کہ کس طرح اُنھوں نے آگ بجھانے والے محکمے سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی ’’ہم نے فون کے ذریعے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے فون کا جواب تک نہیں دیا۔ ہم نے دس بار فون کیا۔ آخر جب ایک بار انھوں نے جواب دیا تو بس اتنا کہا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس آگ بجھانے والی صرف دو گاڑیاں ہیں‘‘۔

اس گھرانے کی گرمیوں کی رہائش گاہ پاؤلوو پساد میں ہے جو دارالحکومت ماسکو سے صرف 68 کلومیٹر دور ہے۔

ویلیرے گیواردرسکی ایک سو دسویں فائر بریگیڈ کے لیے کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ کریلووا کی پریشانی کو سمجھتے ہیں لیکن ان پاس سات دوسرے علاقوں کی بھی ذمہ داری ہے اور ان کے پاس آگ بجھانے کا جو سامان ہے وہ بہت پرانا ہے۔ ان کے پاس چار ٹرک ہیں اور ان میں سے بھی صرف دو میں پانی بھرا جا سکتا ہے۔ ایک اور بڑی پریشانی یہ ہے کہ پانی لینے کے لیے ان ٹرکوں کو کنوئیں پر جانا پڑتا ہے ۔ کنواں تین کلومیٹر سےبھی زیادہ فاصلے پر ہے۔ اس سے نزدیک اور کوئی جگہ نہیں جہاں سے پانی لیا جا سکے۔

ٹرک پانی خالی کرتے ہیں اور پھر پیٹرول لینے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح آگ بجھانے کا کام اورزیادہ مشکل ہو گیا ہے ۔ ویلیرے یہ بھی کہتے ہیں کہ روس کے پاس کافی تعداد میں آگ بجھانے والا تربیت یافتہ عملہ بھی نہیں ہے جو ملک بھر میں تین سو مقامات پر بھڑکی ہوئی آگ سے نمٹ سکے۔ اگر ہمارے پاس زیادہ لوگ ہوتے تو ہم بہتر نتائج حاصل کر سکتے تھے۔ ان کا محکمہ روزانہ دس نئے لوگ بھرتی کر رہا ہے، لیکن یہ تعداد بالکل نا کافی ہے۔

حکومت کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، روس میں آگ بجھانے والا تربیت یافتہ عملہ صرف 10ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کریملن کو ہزاروں غیر تربیت یافتہ لوگ آگ بجھانے کے لیے بھرتی کرنے پڑ ے ہیں۔ ویلیری تراسَو بھی ان لوگوں میں شامل ہیں۔ وہ پانی کی ایک بالٹی ایک گھر میں لگی ہوئی آگ پر پھینک رہے ہیں۔

جب سے آگ لگی ہے، روسی حکام نے پہلی بار یہ اعتراف کیا ہے کہ آگ پر قابو پانا ان کے بس کی بات نہیں۔

روس کے ہنگامی حالات کے وزیر سرگےشوئی گؤ نے صاف طور پر تو یہ تسلیم نہیں کیا کہ ان کے ملک کے پاس آگ بجھانے کے لیے نہ ضروری سازو سامان ہے، نہ تربیت یافتہ عملہ۔ لیکن انھوں نے صرف اتنا کہا کہ مستقبل کے لیے روس مزید ساز و سامان خریدے گا۔

انھوں نے کہا کہ کریملن اگلے دو برسوں میں ہیلی کاپٹرز کے علاوہ آٹھ ہوائی جہاز خریدے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کے اندر بھی اسکواڈرن بنائی جائیں گی تا کہ مستقبل میں ایسے حالات پیدا نہ ہوں۔

روس کے صدر دمتری مدویدیف نے سرگے پر زور دیا ہے کہ آگ بجھانے والے تمام لوگوں کے لیے سامان خریدا جائے۔ انھوں نے کہا کہ چونکہ آب و ہوا تبدیل ہو رہی ہے اس لیے روس کو مستقبل میں زیادہ ٹیکنیکل مدد درکار ہوگی۔



ادھر پاؤلوو پساد میں اینیا کریلوا کہتی ہیں کہ مستقبل میں زیادہ سازو سامان کے وعدے سے ان کے لیے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ انہیں تو اس وقت مدد کی ضرورت ہے’’میں جب امریکہ میں تھی تو میں ایک ہاسٹل میں رہتی تھی۔ ایک دفعہ ایک شخص نے مائکرو ویو میں پاپ کارن بنانے کی کوشش کی اور دھویں سے الارم بج اٹھا۔ پانچ منٹ کے اندر وہاں فائر بریگیڈ پہنچ گیا۔ انھوں نے ہم سے بلڈنگ چھوڑنے کے لیے کہا ۔ پھر انہوں نے پورے سسٹم کو چیک کیا۔ میں نے اپنے آپ کو بالکل محفوظ محسوس کیا ، اگرچہ میں اپنے ملک میں نہیں تھی۔ یہاں یہ جنگلات حکومت کے نہیں ہیں ۔ اس لیے کسی کو یہاں آگ لگنے کی پرواہ نہیں ہے‘‘۔

روسی وزیراعظم نے حال ہی میں حکام پر تنقید کی کہ انھوں نے آگ کی تباہی کو روکنے کے لیے کافی اقدامات نہیں کیے۔ انھوں نے کہا کہ جو کوئی آگ کے شعلوں پر قابو پانے میں پس و پیش سے کام لے گا، اسے بر طرف کر دیا جائے گا۔

موسم کی پیشگوئی کرنے والوں نے کہا ہے کہ کم از کم مزید ایک ہفتے تک درجۂ حرارت 40 ڈگری سیلسیس کے لگ بھگ رہے گا اور بارش کا دور دورتک کوئی پتہ نہیں ہے۔