موصل: فوجی کارروائی کی تیاری، تنازعات میں الجھے ہوئے اتحادی

کُرد وزیر اعظم بارزانی نے کہا ہے کہ ''ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیئے کہ موصل کا معاملہ عسکری سے زیادہ سیاسی ہے۔'' نینوا وہ خطہ ہے جس پر کُرد اور عربوں کے درمیان ایک طویل عرصے سے تنازعات چلے آرہے ہیں

ایسے میں جب ایک طویل عرصے سے موصل کے خلاف متوقع فوجی کارروائی میں چند ہی دِن باقی ہیں، امریکی حکام اتحاد میں شامل ملکوں کے بھڑکے ہوئے آپسی تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ عراق کے اس دوسرے بڑے شہر کو آزاد کرایا جا سکے، جو عراق کے شہری علاقے میں داعش کا آخری بڑا گڑھ ہے۔

ہفتوں سے اس حملے کی توقع کی جا رہی تھی، جس کا برملا اظہار کیا جاچکا ہے، جب کہ موصل میں اتحادی ریڈیو کی نشریات اور شہری آبادی کو خبردار کرنے سے متعلق اشتہاری مہم جاری ہے، جس کی مدد سے ضرورت پڑنے پر متاثرین کے لیے نکلنے کے راستوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
تاہم، اتحادی ملکوں کے مابین بڑھتی ہوئی نااتفاقی بدتر ہونے کے امکانات ہیں، خاص طور پر یہ بات کہ آزاد ہونے کے بعد، موصل کے نینوا کے وسیع علاقے پر حکمرانی کس طرح ہوگی اور داعش کو باہر نکالنے کی لڑائی میں کن فریق کو شامل کیا جائے۔

کردستان کی علاقائی حکومت نے، جس کے وزیر اعظم نوشیروان بارزانی ہیں، مستقبل میں درپیش ہونے والے مسائل کے بارے میں اتوار کے روز متنبہ کیا، اگر اس سے پہلے نینوا میں اختیارات میں شراکت داری سے متعلق عراقی حکومت کے ساتھ کوئی سمجھوتا طے نہیں پا جاتا۔ اربیل میں معاشیات کے بارے میں ایک اجلاس سے خطاب میں، بارزانی نے بتایا کہ ''ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیئے کہ موصل کا معاملہ عسکری سے زیادہ سیاسی ہے''۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ ''خطے کے مستقبل کا فیصلہ کرنے اور سیاسی عمل کے بارے میں تمام سیاسی اور مذہبی حلقوں کو کردار ادا کرنا چاہیئے، آیا وہ اس علاقے پر کس طرح کی حکمرانی کے خواہاں ہیں''۔

نینوا وہ خطہ ہے جس پر کرد اور عربوں کے درمیان طویل مدت سے تنازعات چلے آرہے ہیں''۔

بارزانی نے تسلیم کیا کہ موصل پر کارروائی کے لیے فوجی تیاری کی جا چکی ہے، جب کہ اُنھوں نے جمعے کے روز واشنگٹن میں داعش کے انسداد کے خلاف محکمہ خارجہ کے ایلچی، بریٹ میک گرک کے بیان کی حمایت کی، جنھوں نے کہا ہے کہ کارروائی کے لیے ضروری تمام پہلوئوں کی تیاری کی گئی ہے۔ میک گرک نے کہا کہ اُنھیں توقع ہےکہ فوجی کارروائی قریب تر ہے۔