ڈامبا نے معذروی کو خوابوں کی تکمیل میں رکاوٹ نہیں بننے دیا

ڈامبا نے معذروی کو خوابوں کی تکمیل میں رکاوٹ نہیں بننے دیا

مغربی افریقہ کا ملک سِیرا لیون گیارہ سال تک خانہ جنگی میں گھرا رہا۔ یہ جنگ 1991 میں اس وقت شروع ہوئی تھی جب ریولوشنری یونائیڈ فرنٹ نامی ایک باغی گروپ نے ہیروں کی کانوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ باغیوں نے نہتے دیہاتیوں پرچھروں اور کلہاڑیوں کے ساتھ حملے کیے اور ان کے ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضاءکاٹ کر انہیں اپاہج بنایا۔حملہ آوروں کا نشانہ بننے والوں میں پانچ سالہ ڈامبا کروما بھی شامل تھیں جنہیں اپنے بائیں بازو سے محروم ہونا پڑا ۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ ماضی کا بھیانک حادثہ انہیں اپنے مستقبل کے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے سے نہیں روک سکتا۔

دائیں بازو کے ہاتھ پر خوبصورتی سے تراشے ہوئے ناخن مگر بائیں طرف صرف اس بازو کی یاد ہے جو کبھی تھا۔ مگر ڈامبا کروما ماضی کو اپنے راستے میں رکاوٹ نہیں بننے دیتیں۔ کھانا پکانا ان کا شوق ہے۔ ہائی سکول کی سند حاصل کرنے سے پہلے وہ کوکنگ کلاس میں سلاد بنا رہی ہیں۔ وہ مصنوعی اعضا کے لیے خاص طور پر بنے ہوئے اوزار استعمال کرتی ہیں۔

ڈامباکروما کہتی ہیں کہ مجھے یہ بہت اچھا لگتا ہے کہ آپ ایک بہت ہی ذائقےدار چیز بنائیں جسے لوگ پسند کریں ۔ مجھے کھانا اچھا لگتا ہے۔

ان کے استاد کریگ شورمین نے کھانا پکانے کا سامان جمع کرنے میں ان کی مدد کی۔ جو ایک غیر منافع بخش تنظیم نے عطیہ کیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈامبا چند بہترین طلبا میں سے ایک ہیں ۔

گریک شورمین کا کہناہے کہ وہ کچن میں بہت لگن سے کام کرتی ہیں۔ وہ اتنی ہی تیزی سے کام کر سکتی ہیں جتنا کوئی دو ہاتھوں سے کر سکتا ہے۔

کلاس کے طلبا کے مطابق وہ بہت مدد کرتی ہیں۔

http://www.youtube.com/embed/So8b9P4hdH4

سیرا لیوں میں خانہ جنگی کی بات کرتے ہوئے ڈامبا 1997ء کا وہ دن یاد کرتی ہیں جب باغیوں نے ان کے گاؤں پر حملہ کیا اور ڈمبا کی والدہ سے رقم کا تقاضا کیا جس پر انہوں نے کہا کہ ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔ گروپ کے سربراہ نے کہا کہ ڈامبا کو ایک مثال بنایا جائے گا کہ انہیں انکار کرنے کا انجام کیا ہوگا۔

وہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے میرا بائیاں بازو کاٹ دیا اور پھر یہی میری والدہ کے ساتھ بھی کیا۔ اور پھر اس کے بعد انہوں نے بہت سے گاؤں والوں کے ساتھ یہی کیا جو اس وقت وہاں موجود تھے۔

ڈامبا کہتی ہیں کہ ان کے خاندان کو ان فسادات سے نکل کرپیدل اسپتال تک پہنچنے میں تین دن لگے۔ اس کے بعد وہ کئی سال تک ایک مہاجر کیمپ سے دوسرے مہاجر کیمپ تک جاتی رہیں اور ارد گرد کے شہروں کے لوگوں سے مدد مانگتی رہیں۔

جب ماں اور بیٹی معذور افراد کے ایک کیمپ میں تھیں تو انہیں 2000ءمیں امریکہ آکر مصنوعی بازو لگوا نے کا موقع ملا ، اس کے بعد ڈامبا واپس سیرا لیوں نہیں گئیں ۔

ان کی کہانی عام ہوئی توریاست ورجینا الیگزینڈریا کے ایک رہائشی سحر پومبور اور ان کی بیوی جوزفین نے ڈامبا کا سرپرست بننے کی پیشکش کی ۔

سیرا لیوں سے تعلق رکھنے والا نو بیاہتا جوڑا جو اپنے ملک کی خانہ جنگی سے نکل کر امریکہ آیا تھا۔ انہیں ڈامبا کی شکل میں اپنی پہلی بچی مل گئی۔ بعد میں ان کی اپنی تین بیٹیاں ہوئیں۔جوزفین پومبورکہتی ہیں کہ ان کی بہن نے ڈامبا کو نارمل کرنے کے لئے ان کی راہنمائی کی ۔

ڈامبا کہتی ہیں کہ ان کی معذوری انہیں روک نہیں سکتی۔

گزشتہ اپریل میں ڈامبا امریکہ آنے کے بعد پہلی بار سیر الیون گئیں۔وہ مصنوعی اعضا والے اپنے جیسے دیگر افراد سے ملی اور طالب علموں سے کہا کہ وہ ہمت نہ ہاریں ۔ وہ اپنی والدہ اور خاندان کے دیگر افراد سے بھی ملیں ۔

ڈامبا کچھ مہینوں میں کالج جانا شروع کریں گی ۔ وہ انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ پڑھنا چاہتی ہیں ۔ اور کہتی ہیں کہ سیرا لیوں ابھی جنگ کے اثرات سے نمٹ رہا ہے۔وہ اپنے ملک میں بچوں اور عورتوں کے لیے اسپتال کی تعمیر میں مدد کرنا چاہتی ہیں ۔

وہ کہتی ہیں کہ مجھے دوسروں کی مدد کرنے کا شوق ہے کیونکہ بہت سے لوگوں نے جس طرح میری مدد کی میں اب وہ دوسروں کے لیے کرنا چاہتی ہوں۔