بھارتی اپوزیشن رہنماؤں کی کشمیر میں داخلے پر پابندی

راہول گاندھی اور دیگر رہنماؤں کو سرینگر ایئرپورٹ سے ہی واپس نئی دہلی روانہ کر دیا گیا

کانگریس پارٹی کے لیڈر راہول گاندھی اور حزبِ اختلاف میں شامل دوسرے سرکردہ راہنماؤں کا ایک وفد بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے ہفتے کو نئی دہلی سے سرینگر پہنچا۔ لیکن، حکام نے اسے سرینگر کے ہوائی اڈے سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی اور پھر اگلی پرواز سے واپس نئی دہلی روانہ کر دیا۔

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے گورنر کی انتظامیہ کے ترجمان روہت کنسل نے اس اقدام کا دفاع کیا ہے۔ انھوں نے ریاستی حکومت کی ایک حالیہ ٹویٹ کا حوالہ دیا۔

ٹوئیٹ میں کہا گیا تھا کہ ’’ایسے وقت میں جب حکومت ریاستی عوام کو سرحد پار سے دہشت گردی کے خطرات اور عسکریت پسندوں اور علحیدگی پسندوں کی طرف سے کیے جانے والے حملوں سے محفوظ رکھنے اور شرپسند عناصر کی ریشہ دوانیوں کو ناکام بناتے ہوئے امن و امان کو بتدریج بحال کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔ سینئر سیاسی لیڈروں کو ایسے اقدامات سے اجتناب کرنا چاہیے جن سے معمول کی زندگی بحال کرنے کے کام میں رخنہ پڑنے کا احتمال ہو‘‘۔

انہوں نے کہا کہ ’’حزبِ اختلاف کے لیڈروں کو مشورہ دیا گیا تھا وہ سرینگر آکر دوسرے لوگوں کے لیے مشکلات کھڑی نہ کریں۔ نیز وہ وادی کے کئی علاقوں میں نافذ بندشوں کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے‘‘۔

راہول گاندھی اور دوسرے اپوزیشن لیڈروں کو سرینگر کے ہوائی اڈے پر موجود ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے ملنے نہیں دیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس موقعے پر پولیس نے میڈیا سے وابستہ افراد سے بد سلوکی کی۔

اس سے پہلے اپوزیشن لیڈروں نے سرینگر روانہ ہونے سے پہلے نئی دہلی میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ وادی کشمیر کی زمینی صورتِ حال کا خود وہاں جاکر جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ وفد میں کانگریس کے علاوہ جن سیاسی جماعتوں کے قائدین یا نمائندے شامل تھے ان میں مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی، بھارتی کمیونسٹ پارٹی، راشٹریہ جنتا دل، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی، ترنمول کانگریس اور ڈی ایم کےقابل ذکر ہیں۔

ان لیڈروں کا کہنا تھاکہ وہ سرینگر زمینی صورتِ حال کا جائزہ لینے جا رہے ہیں نہ کہ افراتفری پھیلانے کے لیے۔ ترنیمول کانگریس پارٹی کے سرکردہ لیڈر دنیش تریویدی نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا: "ہم آئینِ ہند کی دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد وادی کی صورتِ حال کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔"

کانگریس پارٹی کے ایک سینئر لیڈر اور بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے سابق وزیرِ اعلیٰ غلام نبی آزاد نے استفسار کیا کہ اگر ریاست میں حالات پُر امن اور قابو میں ہیں جیسا کہ حکومت دعویٰ کرتی ہے تو اپوزیشن لیڈروں کو سرینگر میں داخل ہونے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی۔

اس سے پہلے جمعرات کو اپوزیشن لیڈروں نے نئی دہلی میں پارلیمنٹ ہاؤس کے قریب واقع جنتر منتر کے مقام پر ایک احتجاجی جلسہ کیا تھا اور بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں گزشتہ تین ہفتے کے دوران حراست میں لیے گیے سیاسی لیڈروں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔