بھارت میں ریاستی انتخابات ،مودی کی مقبولیت کا امتحان

FILE

پانچ ریاستوں کے انتخابات سن دوہزار انیس میں ہونے والے عام انتخابات کی سمت کا تعین کریں گے ۔

بھارت کی پانچ ریاستوں میں اگلے ماہ ہونے والے انتخابات وزیراعظم نریندر مودی کی نیک نامی اور مقبولیت کا امتحان ثابت ہوں گے۔ یہ انتخابات ایسے وقت میں ہورہے ہیں جب بھارت میں کرنسی نوٹوں کی بندش عوام اور حکومت دونوں کے لئے ایک سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اپوزیشن نے کرنسی کے مسئلے پر وزیراعظم کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں آڑے ہاتھوں لیا ہوا ہے۔

کرنسی نوٹوں کی تبدیلی سے بھارت بھر میں ناصرف سیاسی ہلچل مچی ہوئی ہے بلکہ ملک میں کرنسی کا بحران بھی پیدا ہوگیا ہے۔ جن ریاستوں میں انتخابات ہو رہے ہیں ان میں پنجاب، اتر پردیش، اتارکھنڈ ، منی پور اور گوا شامل ہیں۔

انتخابات کا آغاز چار فروری کو ہوگا اور وقفے وقفے سے پورے ایک ماہ میں یہ انتخابات مکمل ہوں گے۔

بدھ کو چیف الیکشن کمشنر ناظم زیدی نے انتخابات کے انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ایک سو ساٹھ ملین ووٹرز ان انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔

یہ وسط مدتی انتخابات اس بات کو چانچنے کا بھی آلہ ثابت ہوں گے کہ آیا عوام نے چھیاسی فیصد سے زیادہ ملکی کرنسی کو منسوخ کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے یا نہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کرنسی بحران سے سب سے زیادہ غریب عوام متاثر ہوئی ہے اور بھارت میں غربیوں کی اکثریت آباد ہے۔

فیصلہ کن ریاست اترپردیش
نریندر مودی کے لئے سب سے اہم اور فیصلہ کن کردار ریاست اتر پردیش کے انتخابات ادا کریں گے۔ یہاں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی یعنی بی جے پی سب سے مشہور جماعت رہی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کہیں کرنسی بحران اسے جھٹکا دینے کا باعث نہ بن جائے۔

نئی دہلی سے تعلق رکھنے والی سیاسی تجزیہ نگار نیرجا چوہدری کا کہنا ہے کہ ان پانچ ریاستوں کے انتخابات سن دوہزار انیس میں ہونے والے عام انتخابات کی سمت کا تعین کریں گے۔ اگر نریندر مودی انتخابات جیت جاتے ہیں تو اس سے یہ پیغام جائے گا کہ سرمایہ کاروں کے لئے سیاسی صورتحال مستحکم ہے اور اس سے معیشت کو فائدہ پہنچے گا جو فی الحال سست روی کا شکار ہے۔

تاہم نیرجا نے خبردار کیا کہ اگر وہ انتخابات ہار جاتے ہیں تو اس کا نقصان خود انہیں ہی سب سے زیادہ اٹھانا پڑے گا جبکہ اپوزیشن کو اس بہانے مضبوط ہونے کا موقع مل جائے گا۔

رپورٹس کے مطابق مودی کی بڑے نوٹوں کی بندش کا فیصلہ بہت بڑا رسک ہے اور صرف مٹھی بھر مشیروں کے کہنے پر انہوں نے غیر قانونی سرمائے کو ضائع کرنے کی غرض سے اتنا بڑا رسک لیا۔

اس فیصلے کو عوام کی اکثریت نے پسند نہیں کیا۔ لوگوں کو لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر نئے نوٹ حاصل کرنا پڑے۔ اس دوران بعض لوگ ہلاک بھی ہوئے۔

اس فیصلے سے سب سے زیادہ دیہی علاقے اور وہاں کی عوام کو نقصان اٹھانا پڑا۔ دور دراز علاقوں میں کرنسی ملنا ٹیڑھی کھیر سے کم ثابت نہیں ہوا ۔ ان علاقوں میں ملک کی دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت آباد ہے ۔ اس لئے یہی علاقے نریندر مودی کے سیاسی مستقبل کا تعین طے کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے ۔