سوڈانی وزیرِ دفاع کے وارنٹ گرفتاری جاری

فائل

سوڈانی وزیرِ دفاع پر قتل، زنا بالجبر، زبردستی تبادلہ، تشدد، املاک کو نقصان پہنچانے، لوٹ مار اور عام شہریوں پر حملے کرنے سمیت مختلف نوعیتوں کے الزامات عائد کیے گئے ہیں

عالمی عدالت برائے جرائم نے سوڈان کے وزیرِ دفاع عبدالرحیم محمد حسین کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے ہیں۔

عدالت نے جمعرات کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ حسین سوڈان کے علاقے دارفر کی خانہ جنگی کے دوران کیے جانے والے انسانیت کے خلاف جرائم کے 41 الزامات میں عدالت کو مطلوب ہیں۔

سوڈانی وزیرِ دفاع پر قتل، زنا بالجبر، زبردستی تبادلہ، تشدد، املاک کو نقصان پہنچانے، لوٹ مار اور عام شہریوں پر حملے کرنے سمیت مختلف نوعیتوں کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

عالمی عدالت کے استغاثہ کا الزام ہے کہ محمد حسین نے اگست 2003ء سے مارچ 2004ء کے درمیان میں دارفر کے دیہات پر کیے گئے فضائی اور زمینی حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔

استغاثہ کا کہنا ہے کہ سوڈانی حکومت کی افواج اور ان کے اتحادی مسلح گروہوں نے جان بوجھ کر علاقے میں 'فر' نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا تھا۔

استغاثہ کے دعویٰ کے مطابق حملوں کا منصوبہ سوڈانی حکومت میں اعلیٰ سطح پر ترتیب دیا گیا تھا جس میں محمد حسین، جو اس وقت ملک کے وزیرِ داخلہ تھے، کا اہم کردار تھا۔

واضح رہے کہ سوڈان عالمی عدالت کو تسلیم نہیں کرتا اور سوڈانی حکومت استغاثہ کی جانب سے موجودہ وزیرِ دفاع کے خلاف عائد کردہ الزامات کو سیاسی قرار دیتے ہوئے مسترد کرچکی ہے۔

سوڈان کے صدر عمر البشیر سمیت تین دیگر سوڈانی رہنما بھی دارفور میں پیش آنے والے مبینہ جنگی جرائم کے الزام میں عالمی عدالت کو مطلوب ہیں۔

صدر بشیر اپنے خلاف جاری کیے گئے عالمی وارنٹ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بیرونِ ملک آتے جاتے رہے ہیں لیکن ان کے یہ دورے زیادہ تر ایسے ممالک تک محدود رہے ہیں جو یا تو عالمی عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں یا جن کی حکومتوں کی جانب سے انہیں گرفتار کیے جانے کا امکان نہیں۔

یاد رہے کہ دارفور کے باغیوں نے علاقے کو نظر انداز کیے جانے کی شکایت کرتے ہوئے 2003ء میں سوڈان کی مرکزی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔

اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق اس تصادم میں اب تک تین لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ 25 لاکھ افراد کو بے گھر ہونا پڑا۔

علاقے کے باغیوں کی اہم تنظیم 'جسٹس اینڈ ایکویلیٹی موومنٹ' اور سوڈانی افواج کے درمیان علاقے میں اب بھی ہلکی پھلکی جھڑپیں آئے روز کا معمول ہیں۔