شرجیل میمن اور دیگر کی درخواست ضمانت واپس

سندھ کے محکمہ اطلاعات میں 5 ارب 76 کروڑ روپے کی مبینہ بدعنوانی کے معاملے پر سپریم کورٹ نے سابق صوبائی وزیر اطلاعات اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ایک سینیئر رہنما شرجیل انعام میمن سمیت ملزمان کی درخواست ضمانت واپس لیے جانے کی بنیاد پر نمٹا دی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ شرجیل میمن کو ضمانت دی تو ممکن ہے پھر مفرور ہوجائیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے شرجیل انعام میمن سمیت شریک ملزمان کی جانب سے دائر ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دئیے کہ وزیر اور سیکرٹری کچھ کرنا چاہیں تو کون روک سکتا ہے، قانون میں کئی رعایات موجود ہیں۔ رعایات کا ہمیشہ غلط استعمال کیا گیا، غلط استعمال کے باعث عدالتوں کو بھی اپنا رویہ سخت کرنا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے عدالتیں بیماری پر یقین کر لیتی تھیں، اب میڈیکل سرٹیفکیٹ بھی جھوٹے بنائے جاتے ہیں، جعلی سرٹیفکیٹ دے کر ڈاکٹرز اپنی ساکھ خراب کر رہے ہیں، سندھ کے ایک کیس میں چیف جسٹس کو بھی مداخلت کرنا پڑی، زندگی کو خطرات لاحق ہوں تو ضمانت دی جاتی ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دئیے کہ عدالت نے فیصلے میں حقائق لکھے تو ٹرائل متاثر ہوگا۔ ملزمان کے وکلاء چاہیں تو عدالت کو فیصلہ لکھنے میں کوئی مشکل نہیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اشتہاری کمپنیاں شرجیل میمن سے براہ راست منظوری لیتی رہیں۔ شرجیل میمن گرفتاری سے قبل مفرور قرار دئیے گئے۔ 400 روپے فی منٹ اشہتار کے ساڑھے 12 ہزار ادا کیے گئے۔

شرجیل میمن (فائل فوٹو)

شرجیل میمن کے وکیل لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ سندھ فیسٹول اس وقت کروایا جب دہشتگردی عروج پر تھی، ملک کا تشخص بہتر بنانے کے لیے سندھ فیسٹول کروایا گیا، فیسٹول کے دوران بھی میزائل حملے کا خدشہ رہتا تھا جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دئیے کہ کیا میزائل حملہ 400 روپے کی جگہ ساڑھے 12 ہزار ادا کرکے روکا گیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ مفرور اشتہاری کو کیسے ضمانت دی جاسکتی ہے؟ ممکن نہیں سیکرٹری کی مرضی کے بغیر وزیر غلط کام کرسکے۔ خاموشی کا مطلب اقرار ہوتا ہے، خاموشی کا اقرار سمجھ پر شادیاں بھی ہوجاتی ہیں، نیب مقدمات میں ضمانت کا کوئی تصور نہیں۔ اعلی عدلیہ معمول سے ہٹ کر ملزمان کو ضمانت دیتی ہیں۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ شرجیل میمن نے حاضری سے استشنٰی کی درخواست دی تھی جس پر فاضل جج نے کہا کہ حاضری سے استشںی کے قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے۔ شادی سالگرہ یا کسی مجبوری میں ملزم کو استشںیٰ نہیں مل سکتا۔ استشںیٰ صرف اسی صورت ملتا ہے جب ملزم عدالت میں رہنے کے قابل نہ ہو۔ اعلیٰ عدلیہ اس نکتے کی تشریح کرچکی ہے۔

شرجیل میمن اور شریک ملزمان کے وکیل کی جانب سے تین روز دلائل کے بعد ضمانت کی درخواستیں واپس لے لی گئیں جس پر سپریم کورٹ نے یہ معاملہ نمٹا دیا۔ شریک ملزمان میں سابق سیکرٹری اطلاعات سندھ ذوالفقار، گلزار احمد، سلمان منصور اور عمر شہزاد شامل ہیں۔

نیب کے مطابق ملزمان پر سندھ فیسٹول اور دیگر تشہیری مہم میں بدعنوانی کا الزام ہے، جیسا کہ سندھ فیسٹول میں پہلے اشتہارات دیئے گئے جبکہ کمپنیوں کی تفصیلات بعد میں جاری کی گئیں اور اشتہار چھپنے سے پہلے رقم کی ادائیگی کے آرڈر جاری کیے گئے۔

سابق صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن، اس وقت کے صوبائی سیکریٹری اطلاعات، ڈپٹی ڈائریکٹر انفارمیشن ڈپارٹمنٹ اور دیگر پر 15-2013 کے دوران سرکاری رقم میں 5ارب 76 کروڑ روپے کی خرد برد کا الزام ہے۔

ان پر الزام ہے کہ انہوں نے مذکورہ رقم صوبائی حکومت کی جانب سے آگاہی مہم کے لیے الیکٹرونک میڈیا کو دیے جانے والے اشتہارات کی مد میں کی جانے والی کرپشن کے دوران خرد برد کی۔

شرجیل انعام میمن نے 2015 میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی تھی اور تقریباً 2 سال تک بیرون ملک رہنے کے بعد جب وہ گزشتہ برس 18 اور 19 مارچ کی درمیانی شب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچے، تو انہیں قومی احتساب بیورو (نیب) کے اہلکاروں نے ایئرپورٹ سے ہی گرفتار کرلیا تھا۔ تاہم 2 گھنٹے پوچھ گچھاور ضمانتی کاغذات دیکھنے کے بعد نیب راولپنڈی کے اہلکاروں نے شرجیل میمن کو رہا کردیا تھا۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال 23 اکتوبر کو سندھ ہائی کورٹ نے شرجیل انعام میمن سمیت دیگر ملزمان کی درخواست ضمانت مسترد کردی تھی جس کے بعد نیب کی ٹیم نے انھیں عدالت سے باہر آتے ہی گرفتار کرلیا تھا جس کے بعد ملزمان نے سپریم کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کی تھی۔