موجوں کے دوش پر

اڑتالیس سالہ پیٹر ہیلر

پیٹر ہیلر کی عمر اڑتالیس برس تھی جب انہوں نے سرفنگ کے کھیل سے پنجہ آزمائی کا فیصلہ کیا۔اور اس کے بعد آنے والے چھ ماہ کے واقعات ایک ایسے سفر کی روداد ترتیب دیتے ہیں جس میں بحیرہ اقیانوس کے ساحلوں پر لہروں کا تعاقب کرتے ہوئے ہیلر نے نہ صرف سرفنگ بلکہ زندگی کے بہت سے حقائق سے آگاہی حاصل کی۔


کئی برسو ں سے مہم جو مصنف پیٹر ہیلر اپنے اس خواب کی آبیاری کرتے آئے تھے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سرفنگ سیکھنے کی خاطر کسی ساحلی علاقے کو جا نکلیں۔ جب ان کے ایک پرانے دوست نے کیلیفورنیا میں سمندر کے کنارے واقع سرف سٹی کا نام سے مشہور ہنٹنگٹن بیچ منتقل ہونے کا فیصلہ کیا تو ہیلن کو محسوس ہوا کہ ان کے دیرینہ خواب کو تعبیر میں بدلنے کا وقت آن پہنچا ہے۔


ہیلر اس بارے میں بتاتے ہیں،"جب میرا دوست سرف سٹی پہنچا تو اس نے کہا 'اچھا! کیوں نہ میں بھی اس ماحول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرفنگ سیکھ لوں'۔ سو اس نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے دعوت دی کہ اگر میں چاہوں تو اس کے ساتھ سرفنگ سیکھنے آسکتا ہوں۔ اور آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ اس طرح کی پیشکش پر میرا جواب کیا ہو سکتا تھا۔ میں نے جواب دیا 'یقیناً! کیوں نہیں!'۔


یہیں سے ڈینیور کے رہائشی پیٹرہیلر کی ایک ایسی نئی مہم جوئی کا آغاز ہوا جس کا خواب وہ برسوں سے دیکھتے آئے تھے اور اس مہم جوئی کی داستان انہوں نے اپنی نئی کتاب "کوک" میں قلم بند کی ہے۔


کتاب کے نام کا مطلب بیان کرتے ہوئے ہیلر کہتے ہیں، "کوک کا مطلب ہے ایک ایسا سرفر جو سرفنگ کے ان بنیادی قوائد سے نا آشنا ہو جو عشروں کے تجربات نے تشکیل دئیے ہیں۔ وہ عین لہروں کے درمیان دیگر سرفرز سے ٹکراتا ہے، ان کی قطار میں گھس کر ان کی فارمیشنز بے ترتیب کر دیتا ہے، جب وہ سطح پر آتا ہے تو ایک زوردار نعرہ بلند کرتا ہے گویا کہ اس نے سمندر تسخیر کرلیا ہو، وہ دیگر سرفرز پر آوازے کستا ہے اور اگلے ہی لمحے کوئی لہر اسے تہہ میں کھینچ لے جاتی ہے۔ یہ کتاب ایک ایسے ہی کوک کی داستان ہے"۔


لیکن ہیلر کا کہنا ہے کہ دراصل ایک کوک ہونے کے سبب ہی ان پر سمندر نے اپنے راز افشا کیے اور انہیں سرفنگ اور خود سمندر کے بارے میں جاننے کے مواقع ملے۔


وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں، "اوشین۔ شاید انگریزی زبان میں اس سے زیادہ حیرت انگیز، وسیع اور خوبصورت لفظ موجود نہیں۔ اگر آپ کچھ دیر تک اس لفظ کو غور سے دیکھیں تو یہ لفظ اپنے نئے مفاہیم آپ پر وا کرے گا، یہ لفظ پھیلے گا اور پھیلتے پھیلتے آپ کے گرد افق کے پار اترتا ایک ہالہ بنادے گا، ایک ایسا لفظ جس پر بارش چاہے تو اپنی بوندیں برسا دے اور اس کی سطح پر چھوٹے چھوٹے دائرے بنا ڈالے، ہوا آئے اور اسے دھیمے سے چھو کے گزر جائے، ایک ایسا لفظ جو بظاہر پرسکون نظر آتا ہے لیکن اپنے اندر پوشیدہ ناقابلِ تسخیر قوت کی بھی نشاندہی کررہا ہوتا ہے"۔


لیکن ہیلر کو اپنے سرفنگ سیکھنے کے اس شوق کی قیمت بھی چکانی پڑی۔ کبھی خراشوں اور ٹوٹے دانتوں کی صورت، تو کبھی دھوپ کی شدت سے جلتے کانوں اور دکھتی آنکھوں کی شکل میں۔ اور کبھی شل ہوتے ہوئے بازووں کے ذریعے۔ کبھی کبھار تو اپنا ماتھا اپنے ہی سرف بورڈ سے ٹکرا جانے کی صورت میں لگنے والی چوٹ کی صورت میں۔ لیکن یہ سب مشکلات ہیلن کو ایک قیمتی فن سکھا گئیں: زندگی کی تیز رفتار موجوں میں سے مناسب ترین موج کے انتخاب کا فن۔


"آپ کو مکمل سپردگی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے،" ہیلر نے اپنے سرفنگ کے تجربے کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کہا۔ "آپ اپنے آپ کو اپنے سے بڑی اور بالاتر قوت کے سپرد کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ جس طرف چاہے آپ کو بہا لے جائے۔ بس آپ کو یہ یقین ہوتا ہے کہ سب کچھ معمول کے مطابق ہی ہوگا۔ دراصل یہ سارا عمل خود کو نت نئے تجربات سے آشنا کرنے کے لیے ہے۔ کوک ہونے کا یہی ایک مقصد ہے۔ میرا مطلب ہے خود کو مبتدی کے طور پر پیش کرنے کا یہی مقصد ہے۔ لیکن اس سارے عمل کے دوران کبھی کبھار یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ یہ سب سمجھ کے اور کر کے گویا آپ خود کو ہی بے وقوف بنا رہے ہوں"۔


سمندر کے ساتھ گزارے گئے دنوں نے ہیلر کو ایک اور سبق بھی دیا، اور وہ یہ کہ عاجزی کیسے اور کیونکر اختیار کی جائے۔

پیٹر ہلر کی تصنیف - کوک


"آپ ہر صبح جب سمندر میں اترتے ہیں تو کوئی سمندری کچھوا آپ کو اپنے ساتھ ساتھ تیرتا نظر آتا ہے۔ پرندے آپ کے سر پر چہچہا رہے ہوتے ہیں۔ آپ کو اپنے دائیں بائیں کوئی شارک اور ڈولفن بھی نظر آجاتی ہے اور آپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ خود بھی انہی تمام مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہیں اور بس۔ یہ مناظر یہ احساس دلاتے ہیں کہ اس کائنات میں آپ اکیلے ہی طاقتور نہیں۔ سمندر میں آپ خود بھی اپنے سے زیادہ کسی طاقتور کی غذا بن سکتے ہیں۔ اور مجھے یہ سب اچھا لگتا ہے۔ مجھے دنیا میں ایک ایسی جگہ دریافت کرلینے کی ازحد خوشی ہے جو مجھ میں عاجزی کے جذبات ابھارتی ہے۔ اور یہی وہ سبق ہے جسکی یاد دہانی میں روزانہ خود کو کراتا ہوں کہ میں خود بھی اس دنیا میں موجود دیگر مخلوقات کی طرح محض ایک مخلوق ہوں۔ انہی کے برابر حقوق کی حامل ایک تخلیق اور بس"۔


ہیلر کے اس سفر نے انہیں کچھ تلخ حقائق سے بھی روشناس کرایا۔ بحیرہ اوقیانوس کے دامن میں گزارے ان دنوں کی بدولت ہی انہیں ماحولیاتی آلودگی کی سنگینی اور اس کے سبب سمندروں کو لاحق خطرات کا ادراک ہوا۔


"کچھ عرصہ قبل مجھے 'دی کوو' نامی دستاویزی فلم بنانے والی ٹیم کی طرف سے فون کال موصول ہوئی۔ ان کی اس فلم کو بعد ازاں دستاویزی فلموں کا آسکر انعام بھی ملا۔ انہوں نے مجھے اپنے ساتھ جاپان کے قصبے تاجی کے اس غار میں چلنے کی دعوت دی جہاں ہر سال ڈولفنز اور چھوٹی وہیلز کا قتلِ عام کیا جاتا ہے۔ جب میں اس سمندری کھوہ میں اپنے سرف بورڈ پر سوار ہوکر داخل ہوا تو وہ ان بڑی ڈولفنز اور پائلٹ وہیلز کے خون سے سرخ ہورہا تھا جنہیں وہاں ہلاک کیا جاتا رہا۔ ہم نے، یعنی وہاں موجود سرفرز نے، ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کرقتل کی جانے والی ڈولفنز کی یاد میں ایک طرح کی تعزیتی تقریب منعقد کی"۔


اس تجرنے نے ہیلر کے سوچنے کا انداز بدل ڈالا۔


"میں اس غار میں وہ سب کچھ دیکھ کر دہل گیا تھا۔ وہاں سے واپسی کے بعد میں سوچتا رہا کہ کس طرح ہمارے سمندروں کو ہماری بے احتیاطی کے باعث اپنی بقا کی جنگ لڑنا پڑ رہی ہے، دنیا کے آدھے سے زیادہ کورل ریفس یا تو ختم ہو چکے ہیں یا معدومی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ہم دنیا کے سمندروں کے گہرے نیلے پانی کی نوے فیصد مقدار سے محروم ہو چکے ہیں۔ بڑی گیم فش، ہیلی بٹ، ٹیونا، مارلن اور وہ تمام مچھلیاں جو ہماری پسندیدہ غذاؤں میں شامل رہی ہیں، ہم 1950 سے لے کر اب تک ان کی نوے فیصد تعداد سے محروم ہو چکے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اب مچھیروں کے جالوں میں پھنسنے والی مچھلیاں بہت چھوٹی ہوتی ہیں۔ درحقیقت یہ ممکن نہیں کہ آپ 2010 میں رہتے ہوئے کسی سمندر میں سرفنگ کررہے ہیں اور وہاں آنے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کو محسوس نہ کرسکیں۔"


ہیلر کو امید ہے کہ ان کے وہ تجربات جن سے وہ سرفنگ سیکھنے کے عمل کے دوران گزرے، اور جو انہوں نے اپنی کتاب "کوک" میں قلم بند کیے ہیں، دنیا بھر میں گرمیوں میں تفریح کے لیے سمندروں کا رخ کرنے والے لوگوں کو متاثر کریں گے اور انہیں سمندروں اور ان میں موجود آبی مخلوقات کے تحفظ کے لیے عمل اقدامات اٹھانے پرابھاریں گے۔