پاکستان کے افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی ضلعے جنوبی وزیرستان کے ایک گاؤں میں بدھ کی شام فورسز کی مبینہ کارروائی کے بارے میں متضاد اطلاعات سامنے آ رہی ہیں جب کہ اس میں اموات کے بارے میں بھی تضاد ہے۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے بیان میں کہا گیا ہے کہ خفیہ اطلاع پر کی گئی کارروائی میں آٹھ عسکریت پسند نشانہ بنے ہیں۔
آئی ایس پی آر نے اسی کارروائی میں دو راہ گیر بچوں کی موت کی بھی تصدیق کی ہے۔
دوسری جانب مقامی افراد کادعویٰ ہے کہ اس علاقے میں کسی بھی قسم کا تصادم نہیں ہوا بلکہ ایک دکان اورا س سے ملحقہ گھر پر گولہ باری کی گئی جس کے نتیجے میں 10 افراد ہلاک ہوئے جن میں یہ دو بچے بھی شامل تھے۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے بتایا کہ یہ واقعہ جنوبی وزیرستان کی تحصیل لدھا کے گاوں زنگاڑہ خدرزئی میں بدھ کو عصر کے وقت پیش آیا ۔ اس علاقے میں مواصلات کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔
مقامی صحافی دلاور وزیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تحصیل لدھا کی پولیس نے واقعے کے حوالے سے اپنے ریکارڈ میں ایک روزنامچہ درج کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ زنگاڑہ خدرزئی نامی گاؤں میں یہ واقعہ شام ساڑھے پانچ بجے اس وقت ہوا جب علاقے کے لوگ بڑی تعداد میں مقامی دکان پر جمع تھے۔
جنوبی وزیرستان زنگاڑہ کے علاقے میں ایک دُکان پر ڈرون حملہ۔سراروغہ ہسپتال کو دو کم سن بچے شدید زخموں کی حالت میں لائے گئے جو زخموں کی تاب نہ لاکر شہید ہوگئے۔بچے دکان کے باہر تھے علاقے میں مواصلاتی نظام نہ ہونے کی وجہ سے معلومات تاحال نہ ہوسکے کہ مزید کتنا جانی نقصان ہوا ہے۔۔1/2
— Manzoor Pashteen (@ManzoorPashteen) March 15, 2023
دلاور وزیر کا کہنا تھا کہ جس دکان کا ذکر پولیس کے روزنامچے میں کیا گیا سے وہاں سے مقامی آبادی سودا لینےآتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر حملے میں دو بچوں کی موت کی اطلاعات سامنے آئی تھیں جوکہ دکان کے قریب سے گزرتے ہوئے اپنے گھر جا رہے تھے۔ ان بچوں کی شناخت پانچ برس کے انعام شوکت اور سات برس کے شاہد اللہ کے نام سے ہوئی۔ زخمی بچوں کو ابتدائی طبی امداد کے لیے سراروغہ اسپتال منتقل کیا گیا۔ البتہ ایک بچے کی موت راستے میں ہوئی جب کہ دوسرا بچہ اسپتال پہنچ کر دم توڑ گیا۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی اوردین محسود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سراروغہ اسپتال کے ایک ڈاکٹر نے مارٹر گولہ لگنے سے دو بچوں کی موت کی تصدیق کی ہے جب کہ ایک بچہ زخمی بھی ہوا۔
مقامی لوگ اسے ڈرون حملہ قرار دے رہے ہیں۔ البتہ اوردین محسود کا کہنا تھا کہ ڈرون طیارے سے فائر ہونے والے میزائل کا نشانہ بننے والے افراد کی لاشیں یا دیگر اشیا جلی ہوئی ہوتی ہیں جب کہ اس واقعے میں مرنے والے بچوں کی لاشیں درست دکھائی دے رہی تھیں۔
مقامی افراد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حملے میں جس دکان کو نشانہ بنایا گیا ہے وہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے مقامی رہنما قاری شفقت اللہ کے بھائی کی ہے جب کہ حملے میں ان کا بیٹااور بھتیجا ہلاک ہوئے ہیں۔
جنوبی وزیرستان کی تحصیل لدھاعلاقہ زنگاڑہ خدوخیل مارکیٹ پرڈرون حملہ،5سال کے2بچوں کی شہادت کی اطلاع،@GovtofPakistan/سیکیورٹی ادارےوضاحت کریں، #ڈرون حملےقتل عام کالائسنس ہیں،پختون سرزمین کوڈالرکیلئےپھرآگ/خون کی نظرکیاجارہاہے،یہ ناقابل قبول،اس کاراستہ ہرصورت روکینگے۔@OfficialDGISPR pic.twitter.com/5kzTBtRZkC
— Senator Mushtaq Ahmad Khan (@SenatorMushtaq) March 15, 2023
مقامی صحافیوں کے مطابق پولیس کےروزنامچے میں مزید کہا گیا ہے کہ وزیرستان کے مختلف علاقوں میں ڈرون طیاروں کی پروازیں دن بھر جاری رہیں۔ ان طیاروں کے حوالے سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ امریکہ کے ہیں یا پاکستان کے ڈرون طیارے ہیں۔علاقہ مرکزی شاہراہ سے دور ہونے کی وجہ سے معلومات کی تصدیق نہیں ہوسکی۔اموات یا زخمی افراد کی معلومات کے حصول میں بھی وقت لگے گا۔
لدھا پولیس اسٹیشن کے ایک افسر زبیر خان نے وائس آف امریکہ کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ابھی تک باقاعدہ مقدمہ درج نہیں ہوا البتہ اس واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔انہوں نے آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق اموات کی تصدیق کی۔
پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ ہلاک عسکریت پسندوں کا تعلق کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے ہے جب کہ ان میں اہم کمانڈر بھی شامل ہے۔
دوسری جانب ٹی ٹی پی نے اس واقعے کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
جنوبی وزیرستان کی تحصیل لدھا علاقہ زنگاڑہ خدوخیل مارکیٹ پر #ڈرون_حملہ جس کے نتیجے میں 2 بچوں کی شہادت ہوئی جب تک عمران خان حکومت میں تھے کوئی ڈرون حملے نہیں ہوئے۔ امپورٹڈ پی ڈی ایم حکومت جواب دے اس کا ذمے دار کون ہے؟.#DroneAttack #waziristan #Zaman_Park_Lahore pic.twitter.com/OrRd2AZ4Py
— Mushtaq Ghani (@MushtaqGhaniPTI) March 16, 2023
پاکستانی حکام متواتر یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ افغانستان سے ملحقہ جنوبی اور شمالی وزیرستان کےسرحدی علاقے عسکریت پسندوں کا مضبوط گڑھ ہیں جہاں سے وہ سیکیورٹی فورسز اور عام لوگوں پر ہلاکت خیز حملے کرتے رہتے ہیں۔
دوسری جانب مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی اس واقعے کی مذمت کی جا رہی ہے جب کہ حکومت سے اس حوالے سے حقائق سامنے لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے سوشل میڈیا پر بیان میں کہا کہ جنوبی وزیرستان میں حملے پر حکومت فوری طور پر وضاحت کرے کہ یہ ڈرون حملہ تھا یا میزائل حملہ؟
سراج الحق کا مزید کہنا تھا کہ یہ حملہ کس نے کیا اور اس کو روکا کیوں نہیں گیا؟ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا یہ حملہ نئی جنگ کی ابتدا ہے؟
جنوبی وزیرستان میں حملے کے دوران بچوں کی شہادت کے حوالے سے اطلاعات کی حکومت فوری وضاحت کرے کہ یہ ڈرون حملہ تھا یا میزائل؟ یہ کس نے کیا؟ روکا کیوں نہیں گیا؟کیا یہ حملہ نئی جنگ کی ابتدا ہے؟ لاشوں کی سیاست اور لاشوں کی معیشت قوم مسترد کرتی ہے، یہ ناقابل قبول ہے
— Siraj ul Haq (@SirajOfficial) March 15, 2023
سراج الحق کے علاوہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے بھی سوشل میڈیا پر واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے خیبرپختونخوا کے سیکریٹری جنرل سردار بابک نے بچوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی پر تشدد کارروائیوں کی بندش کے لیے متفقہ آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اس واقعے کی فوری تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔
اس حوالے سے پاکستان میں سوشل میڈیا پر تبصروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔