سوچی کا جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ

فائل

روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار کی حکومت اور فوج کی کارروائیوں پر سوچی کی خاموشی پر کئی حلقے ان سے نوبیل انعام واپس لینے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔

میانمار کی حکمران جماعت کی سربراہ آنگ سان سوچی نے رواں ماہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے پہلے سے طے شدہ اپنا دورہ امریکہ منسوخ کردیا ہے۔

میانمار کی حکومت کے ایک ترجمان نے بدھ کو صحافیوں کوبتایا ہے کہ سوچی نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ ملک میں جاری سکیورٹی کی صورتِ حال کے پیشِ نظر کیا ہے۔

امن کی نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی نے جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت منسوخ کرنے کا فیصلہ ایسے وقت کیا ہے جب انہیں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار میں جاری تشدد روکنے کی کوئی کوشش نہ کرنے پر عالمی برادری کی کڑی تنقید کا سامنا ہے۔

آنگ سان سوچی میانمار کی وزیرِ خارجہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی پہلی فرسٹ اسٹیٹ کونسلر بھی ہیں۔ یہ عہدہ ملک کی حکمران جماعت نے بطورِ خاص انہی کے لیے تخلیق کیا ہے جس کے اختیارات وزیرِ اعظم کے برابر ہیں۔

سوچی کو میانمار میں فوجی حکومت کے خلاف طویل جدوجہد کرنے اور کئی دہائیوں تک قید اور نظر بندی کاٹنے کے باعث عالمی برادری میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

میانمار میں جمہوریت کی بحالی کے لیے طویل اور پرامن جدوجہد کرنے پر ہی انہیں امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔

لیکن گزشتہ سال برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے آنگ سان سوچی نے میانمار کے اقلیتی روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف مسلسل چپ سادھے رکھی ہے جس پر انہیں انسانی حقوق کی تنظیمیں تنقید کا نشانہ بناتی آئی ہیں۔

روہنگیا مسلمان بودھ اکثریتی ملک میانمار کی ایک چھوٹی اقلیت ہیں جن کی اکثریت مغربی ریاست راکھین میں انتہائی کسمپرسی اور افلاس کے عالم میں زندگی گزار رہی ہے۔

میانمار کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو اپنا شہری تسلیم نہیں کرتی جبکہ ان کے خلاف ملک کی فوج اور بودھ انتہا پسند بھی طویل عرصے سے پرتشدد کارروائیاں کرتے چلے آرہے ہیں۔

راکھین میں گزشتہ ماہ بھڑکنے والے فسادات اور وہاں میانمار کی فوج اور بودھ انتہا پسندوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں تین لاکھ روہنگیا مسلمانوں کی پڑوسی ملک بنگلہ دیش ہجرت پر دنیا بھر سے اظہارِ تشویش کے باوجود سوچی نے اس کی مذمت نہیں کی۔

اس کے برعکس گزشتہ ہفتے انہوں نے راکھین میں جاری فسادات سے متعلق خبروں کو "غلط معلومات پر مبنی" قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کی خبریں پھیلانے کا مقصد دہشت گردوں کے مفادات کو فروغ دینا اور میانمار میں آباد مختلف برادریوں کے درمیان منافرت بڑھانا ہے۔

سوچی کے اس بیان پر عالمی برادری، کئی بین الاقوامی رہنماؤں اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے علاوہ نوبیل انعام حاصل کرنے والی کئی شخصیات نے بھی سخت برہمی ظاہر کرتے ہوئے ان کی مذمت کی تھی۔

روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار کی حکومت اور فوج کی کارروائیوں پر سوچی کی خاموشی پر کئی حلقے ان سے نوبیل انعام واپس لینے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔

دریں اثنا راکھین میں جاری تشدد اور وہاں جنم لینے والے انسانی بحران پر غور کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس بدھ کو ہورہا ہے۔

اجلاس برطانیہ اور سوئیڈن کی درخواست پر طلب کیا گیا ہے جنہوں نے پیر کو اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید رعد الحسین کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ روا رکھنے جانے والے سلوک کو "نسل کشی" کے مترادف قرار دینے پر عالمی ادارے کا اجلاس بلانے کی درخواست کی تھی۔

عالمی اداروں کے مطابق راکھین میں 25 اگست سے جاری تشدد کی حالیہ لہر کے دوران اب تک 400 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ سرکاری فوج کی کارروائیوں سے بچنے کے لیے لاکھوں افراد کئی روز کے دشوار گزار سفر کے بعد پناہ کے لیے بنگلہ دیش پہنچے ہیں جہاں انہیں کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔