دمشق میں شامی فوج کی فائرنگ: تین افراد ہلاک

Burmese citizens residing in South Korea greet Aung San Suu Kyi upon her arrival at a hotel in central Seoul, January 28, 2013.

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ہفتے کے روز، دمشق میں، سکیورٹی فورسز نے نمازِ جنازہ کےایک جلوس پر فائر کھول دیا، جِس کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہوگئے

سرگرم کارکنوں نے بتایا ہے کہ شام کی سلامتی فورسز نے دارلحکومت دمشق میں نماز ِجنازہ کے ایک جلوس پر گولیاں چلائی ہیں۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ہفتے کے روز سکیورٹی فورسز نے نمازِ جنازہ کےایک جلوس پر فائر کھول دیا، جِس واقع میں تین افراد ہلاک ہوگئے ، جب کہ ایک روز قبل اِسی علاقے میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا۔

عینی شاہدین اور سرگرم کارکنوں نے کہا ہے کہ ہفتے کو میضی کے مضافات میں نکلنے والے ایک احتجاجی مظاہرے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اُنھوں نے بتایا کہ وہاں ہونے والے ایک واقع میں کم از کم ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے، لیکن ہلاکتوں کی اصل تعداد کا علم نہیں ہوسکا۔

قبل ازیں، ہفتے کو دمشق میں چین کے نائب وزیرِ خارجہ زہائی جون نے شام میں تمام فریقین پر زور دیا کہ تشدد کوختم کیا جائے اور انتخابات کےعمل کو پُرامن رکھنے میں مدد دی جائے۔

زہائی نے، جِنھوں نے صدر بشار الاسد کے ساتھ ملاقات کے بعد تقریر کی، کہا کہ چین نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت، حزبِ مخالف اور وہ دھڑے جو اسلحے سے لیس ہیں فوری طور پر پُر تشدد کارروائیاں بند کر دیں۔

اُنھوں نے کہا کہ چین کوتوقع ہے کہ ایک نئے آئین پر ہونے والے ریفرینڈم اور ساتھ ہی ہونے والے پارلیمانی انتخابات خیر وخوبی سے منعقد ہوں گے۔

چین اور روس دونوں نےاختلافِ رائے رکھنے والوں کے خلاف پُر تشدد کارروائی کرنے پر شام کی مذمت کرنے سے انکار کیا ہے، جِن واقعات میں گذشتہ مارچ سے اب تک 6000سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

جمعرات کو اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی، ِجس کے حق میں اسمبلی کے 193ارکان میں سے 137ممالک نے ووٹ دیا، جِس میں مسٹر اسد کی آمرانہ حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ’شہریوں کے خلاف کیے جانے والے حملے فوری طور پر روک دیے جائیں‘۔