کاسیگ کا قتل، وڈیو میں موجود ایک شدت پسند فرانسیسی

کاسیگ کے والدین (فائل)

وزیر داخلہ، برنارڈ کزنو نے پیر دِن اُس 22 برس کے فرانسیسی شہری کی شناخت، میکسم ہوشاڈ بتائی، جو موریطانیہ میں مختصر قیام کے بعد، ایک برس سے کچھ ہی عرصہ قبل شام گیا تھا

فرانس نے اعلان کیا ہے کہ داعش کے شدت پسندوں کے ہاتھوں امریکی امدادی کارکن، عبدالرحمٰن کاسیگ کا سر قلم کیے جانے سے متعلق سامنے آنے والی وڈیو میں موجود دہشت گردوں میں سے ایک فرانس کا شہری ہے۔

وزیر داخلہ، برنارڈ کزنو نے پیر دِن اُس 22 برس کے فرانسیسی شہری کی شناخت، میکسم ہوشاڈ بتائی، جو موریطانیہ میں مختصر قیام کے بعد، ایک برس سے کچھ ہی عرصہ قبل شام گیا تھا۔

اہل کاروں کا کہنا ہے کہ اس بات کا تعین کیا جا رہا ہے آیا 16 جہادی جنھیں اِس وڈیو میں دکھایا گیا ہے، اُن میں سے ایک اور فرد بھی فرانسیسی شہری ہے۔ اس وڈیو میں کاسیگ کا سر تن سے جدا دکھایا گیا ہے، جب کہ کم از کم 18 شامی فوجیوں کے سر قلم کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔


کاسیگ کو 13 ماہ قبل اُس وقت پکڑ لیا گیا تھا جب وہ شام کے جنگ زدہ علاقے میں انسانی ہمدردی کا کام کر رہے تھے۔

اُسی عقوبت خانے سے ایک ساتھی قیدی کے ہاتھوں باہر آنے والے ایک خط میں، کاسیگ نے اپنے اہل خانہ کو اپنے ساتھ بیتنے والی ممکنہ صورت حال سے آگاہ کیا۔ اُن کے بقول، ’اگر میں ہلاک ہوا تو کم از کم آپ کو اطلاع اور تسلی ہونی چاہیئے کہ میں یہاں پریشان حال لوگوں کی مدد کے لیے کوشاں رہا، اور اُن کی مدد کر رہا تھا، جنھیں مدد درکار ہے۔‘

اتوار کے روز امریکی صدر براک اوباما نے کاسیگ کی ہلاکت کو ’اصل شیطانی عمل‘ قرار دیا۔

امریکی وزیر دفاع، چَک ہیگل نے نامہ نگاروں کو بتایا ہے کہ 26 برس کے کاسیگ، سابق فوجی رینجر تھا، جن کا اقدار اور اصولوں کی پاسدادری کے حوالے سے ایک شاندار ریکارڈ تھا، اور یہ کہ وہ اُن کی دوسروں کی مدد کی خاصیت اُن کے لیے زندگی سے ہاتھ دھونے کا سبب بنی۔

ہیگل نے کہا کہ امریکہ دولت اسلامیہ کے دہشت گرد گروہ کو شکست دینے کے عزم پر قائم ہے۔

اُن کے بقول، کوئی بھی نہیں چاہتا کہ غیر انسانی سلوک اور بربریت پر عمل پیرا دنیا کو گوارا کیا جائے، اور بحیثتِ انسان، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ایسا نہ ہونے دیں۔ یہ مشکل کام ضرور ہے، لیکن ہم اس میں کامیاب ہوں گے۔