شام میں قیدی ہلاک و لاپتا ہو رہے ہیں:اقوام متحدہ کی رپورٹ

فائل

رپورٹ کا عنوان ’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل‘ ہے، اور اسے غیروابستہ بین الاقوامی کمیشن آف انکوائری برائے شام نے تیار کیا ہے، جو 620 انٹرویوز پر مشتمل ہے، جس کی تفصیل زیر حراست افراد اور شہادتوں سے حاصل ہوئی ہے

اقوام متحدہ کے توسط سے تشکیل دی گئی انکوائری کمیشن نے پیر کو اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سرکاری حراستی مراکز سے ہزاروں شامی لاپتا و ہلاک ہو رہے ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ اُنھیں حکومتی پشت پناہی میں ہلاک کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ کا عنوان ’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل‘ ہے، اور اسے غیروابستہ بین الاقوامی کمیشن آف انکوائری برائے شام نے تیار کیا ہے، جو 620 انٹرویوز پر مشتمل ہے، جس کی تفصیل زیر حراست افراد اور شہادتوں سے حاصل ہوئی ہے۔

رپورٹ میں مرد، خواتین، بچوں اور بزرگ قیدیوں کی دل دہلا دینے والی داستانیں شامل ہیں، جو حکومت کی جانب سے قائم حراستی مراکز میں دی جانے والی اذیت اور غیرانسانی برتاؤ کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں۔

بتایا گیا ہے کہ لاکھوں افراد غائب ہوئے ہیں، جن کا کوئی اتہ پتہ نہیں، جو حکومتی افواج کی جانب سی شام کی سویلین آبادی کے خلاف چلائی جانے والی وسیع پیمانے پر اور ایک باقاعدہ مہم کا حصہ ہے۔

رپورٹ میں جیل کی’’غیر انسانی اور ذلت آمیز‘‘ صورتِ حال کی بھی تفصیل بتائی گئی ہے، جس میں کوٹھڑیوں میں گنجائش سے زائد قیدیوں کو ٹھونسا جانا، خوراک اور صفائی کا غیر تسلی بخش انتظام، صحت عامہ تک رسائی کی عدم فراہمی جس کے نتیجے میں انفیکشن اور دیگر طبی صورت حال کے باعث بڑے پیمانے میں ہلاکتیں واقع ہوتی ہیں۔ متعدد حضرات جنسی زیادتی کا شکار بنے ہیں، کئی لوگ غلط رویہ برتے جانے کے نتیجے میں نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔

رپورٹ میں دی گئی تفصیل پر 37 برس کے محمد ہرگز حیران نہیں ہوئے۔ اُن کا تعلق حلب سے ہے اور وہ شامی حکومت کے سابق کارکن ہیں، جنھیں 2013ء میں گرفتار کیا گیا اور شامی فوج اور فضائی افواج سے متعلق انٹیلی جنس نے اُنھیں کئی ہفتوں تک زیر حراست رکھا۔

اُنھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کی آنکھوں پر پٹیاں باندھی جاتی تھیں اور پیٹا جاتا تھا، جس کے بعد اُنھیں ایک چھوٹے سیل میں بند کردیا جاتا تھا جس کے اندر دوسرے قیدی بھی ہوتے تھے۔

اُن کے الفاظ میں، ’’یہ سیل ایک قیدی کے لیے بنایا گیا تھا۔ ہم ایک ساتھ لیٹ بھی نہیں سکتے تھے، اس لیے ہم باری باری سوتے تھے‘‘۔

قیدیوں کو زور سے بولنے یا پھر ٹائلٹ میں ایک یا دو منٹ سے زیادہ رہنے پر سزا دی جاتی تھی۔ کھانا ناکافی ہوتا تھا، کبھی تو مٹھی بھر گندم کے برابر‘‘۔

محمد نے بتایا کہ ’’قیدی سوکھ کر تیلی بن چکے تھے۔ اُنھیں اسہال کی بیماری تھی جب کہ دیگر خوراک کی قلت کی وجہ سے بیمار تھے۔ جب میں وہاں تھا، کئی قیدی ہلاک ہوئے۔ لوگوں کو باہر لے جایا جاتا اور ہمیں خبر نہ ہوتی کہ کہاں چلے گئے‘‘۔