شام میں مظاہرین پر سرکاری فورسز کی فائرنگ، 30 افرادہلاک

شام میں مظاہرین پر سرکاری فورسز کی فائرنگ، 30 افرادہلاک

جمعرات کے روز مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے اپنے اہم پالیسی خطاب میں امریکی صدر براک اوباما نے اپنے شامی ہم منصب کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یا تو وہ اپنے ملک میں آتی جمہوری تبدیلی کی قیادت کریں یا "پھر راستے سے ہٹ جائیں"

شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف جمعہ کی نماز کے بعد ہونے والے مظاہروں کے شرکاء پر سرکاری فورسز کی فائرنگ سے کم از کم 30 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔

بین الاقوامی خبر رساں اداروں نے عینی شاہدین کےحوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ جمعہ کے روز شام کے وسطی شہر ہومز میں ہونے والے ایک حکومت مخالف مظاہرے پر سیکیورٹی اہلکاروں کی براہِ راست فائرنگ سے 11 افراد ہلاک ہوئے۔ ملک کے شمالی قصبہ معارت النعمان میں بھی سرکاری فورسز کی فائرنگ سے 12 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔

دیگر ہلاکتیں شام کے جنوبی دیہی علاقے صنعا میں ، وسطی قصبہ حما اور دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقے درعا میں ہوئیں جہاں جمعے کی نماز کے بعد سڑکوں پر آنے والے حکومت مخالف مظاہرین پر سرکاری فورسز کی جانب سے براہِ راست فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔

شام کے ساحلی شہروں بانیاس اور لطا کیہ سے بھی مظاہرین اور سیکیورٹی اہلکاروں کے مابین تصادم کی اطلاعات ملی ہیں۔

دریں اثناء جمعہ کے روز شام کے کئی شہروں اور قصبوں میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے جن میں حزبِ مخالف کے کارکنوں اور عام شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق ملک میں جمہوری اصلاحات کے نفاذ اور صدر الاسد کے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے والے ان مظاہرین میں سے بیشتر نے اپنے ہاتھوں میں امن کی علامت کے طور پر زیتون کی شاخیں اٹھا رکھی تھیں۔

شام کی انسانی حقوق کی تنظیموں کے دعویٰ کے مطابق مارچ کے وسط سے جاری احتجاجی تحریک کے شرکاء پر سرکاری فورسز کے تشدد سے اب تک 850 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے 7 ہزار سے زائد افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔

جمعرات کے روز مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے اپنے اہم پالیسی خطاب میں امریکی صدر براک اوباما نے اپنے شامی ہم منصب کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یا تو وہ اپنے ملک میں آتی جمہوری تبدیلی کی قیادت کریں یا "پھر راستے سے ہٹ جائیں"۔

شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق شامی حکومت نے صدر اوباما کی تقریر کو "مظاہرین کو اکسانے کی ایک کوشش" قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔

شامی حکومت ملک میں جاری بدامنی اور احتجاجی تحریک کا ذمہ دار حکومت مخالف مسلح گروہوں اور بیرونی طاقتوں کو قرار دیتی آئی ہے۔