شام سے نقل مکانی کرنے والے خاندان مشکلات کا شکار

شام میں 2011ء میں شروع ہونے والی لڑائی کے باعث 20 لاکھ افراد ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

لڑائی کے باعث اندرون ملک بھی گھر بار چھوڑنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

لبنان اور دیگر پڑوسی ممالک میں پناہ لیے شامی خاندانوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

 شام میں امن کی راہ تلاش کرنے کے لیے عالمی کوششیں جاری ہیں۔

نقل مکانی کرنے والوں خاندانوں میں ایک بڑی تعداد بچوں کی بھی ہے۔

شام میں تین سال سے جاری خانہ جنگی میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کا کہنا تھا کہ 90 لاکھ شامی باشندوں، جن میں نصف تعداد بچوں کی ہے کو ہنگامی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔

شام کی فوج نے گذشتہ ایک سال سے حمص میں باغیوں کے زیرِ کنٹرول علاقوں کا محاصرہ کر رکھا ہے۔

شام کی باغی تحریک میں اس وقت اور بہت سارے سخت گیر گروپ شامل ہیں اور اس میں زیادہ تر اسلامک فرنٹ میں شامل ہیں۔

شام میں تقریباً تین سال سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے 22 جنوری کو سوئٹزرلینڈ میں امن کانفرنس کا آغاز ہوا جس میں اقوام متحدہ اور دنیا کے تیس ممالک کے نمائندے شریک ہیں۔