امریکہ اور یورپ طالبان کے ساتھ مصالحت کے حامی ہیں:کرزئى

افغانستان میں اقوامِ متحدہ کی مِشن کے سربراہ کائى اِیدے


افغان صدر حامد کرزئى نے کہا ہے کہ امریکہ اور یورپ، ہتھیار ڈال دینے والے طالبان کے ساتھ مصالحت کرنے اور انہیں دوبارہ افغان معاشرے کا حصّہ بنانے کے لیے اُن کے منصوبے کی حمایت کرتے ہیں۔

مسٹر کرزئى نے پیر کے روز استنبول میں اپنے ترک ہم منصب عبد اللہ گل اور پاکستانی صدر آصف علی زرداری کے ساتھ مذاکرات کے بعد یہ بات کہی ہے۔ان مذاکرات کا اہتمام ترکی نے کیا تھا اور ان میں بیشتر توجہ تینوں ملکوں میں مالیاتی اور تعلیمی ترقیاتی کاموں میں ربط و ضبط کے علاوہ طالبان باغیوں کے خلاف زیادہ قریبی تعاون پر مرکوز کی گئى۔

مسٹر کر زئى نے یہ بات ایسے وقت میں کہی ہے ، جب چند ہی روز بعد لندن میں افغانستان کے بارے میں ایک بین الاقوامی کانفرنس ہونے والی ہے۔

برطانوی وزیرِ اعظم گورڈن براؤن نے پیر کے روز کہا ہے کہ یہ کانفرنس غالباً طالبان کے اُن لیڈروں کو ملک کے سیاسی عمل میں خوش آمدید کہنے کے منصوبے کی تائید کردے گی، جو تشدّد کو ترک کردیں گے۔انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کانفرنس ، افغان فوجیوں اور پولیس کی تعداد میں اضافہ کرنے کے منصوبوں کی توثیق کرے گی۔

اسی دوران ، افغانستان میں اقوامِ متحدہ کے مِشن کے سربراہ نے افغان عہدے داروں سے کہا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کی دہشت گردوں کی بین الاقوامی فہرست سے طالبان کے بعض لیڈروں کے نام خارج کرانے کوشش کریں۔

کائى اِیدے نے پیر کے دن شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اُن کے خیال میں اس قسم کا کوئى اقدام، طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات شروع کرنے کی جانب ایک پہلا قدم ہوگا۔

اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے نے اخبار نیو یارک ٹائمز سے کہا ہے کہ اب افغان عہدےداروں اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کاوقت آگیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان میں مسلسل جنگ کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس قسم کا کوئى قدم اُٹھانا ضروری ہے۔

اِیدے کابل میں اپنے منصب سے مارچ میں سُبکدوش ہورہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست سے طالبان کے ملّا عمر جیسے لیڈروں کے نام خارج کرنے کی سفارش نہیں کریں گے۔انہوں نے کہاکہ یہ لیڈر اگر منظرِ عام پر آئیں تو انہیں گرفتار کرلینا چاہئیے۔