|
طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخونزادہ نے افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان حکام سے کہا ہے کہ وہ باہمی اختلافات سے دور رہیں۔ سوویت یونین کی شکست کے بعد آپس کے اختلافات کی وجہ سے افغانستان میں شریعت نافذ نہیں ہو سکی تھی۔
خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق ہبت اللہ اخونزادہ کا یہ تحریری بیان رمضان کے اختتام پر عید الفطر سے قبل جاری کیا گیا ہے۔
عمومی طور پر طالبان میں اختلافات کی خبریں کم ہی سامنے آتی ہیں۔ تاہم کچھ حالیہ عرصے میں طالبان کی بعض اعلیٰ شخصیات نے قیادت کی فیصلہ سازی، خاص طور پر خواتین کی تعلیم سے متعلق فیصلوں پر اختلاف کا اظہار کیا تھا۔
طالبان کے سربراہ ہبت اللہ اخونزادہ ایک اسلامی اسکالر ہیں جو شاید کبھی بھی عوام میں دکھائی نہیں دیے اور طالبان کے گھڑ صوبہ قندھار سے باہر بھی وہ کم ہی نکلتے ہیں۔
وہ اور ان کے قریبی حلقے نے خواتین اور لڑکیوں پر پابندیاں عائد کرنے میں اہم کردار ادا کیا جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر ردِ عمل سامنے آیا اور طالبان کو عالمی سطح پر تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔
اخونزادہ کا یہ بیان ازبک اور ترک سمیت سات زبانوں میں جاری کیا گیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق طالبان سرمایہ کاری اور قانونی حیثیت حاصل کرنے کے لیے وسائل سے مالا مال وسطی ایشیائی ممالک کا سہارا لے رہے ہیں۔
یہ بھی جانیے
ہبت اللہ اخوندزادہ: مذہبی اسکالرز افغانستان میں مغربی جمہوری طرزکامقابلہ کریں گےافغانستان:سیاسی سرگرمیوں پر تین افراد کو طویل قید اورکوڑوں کی سزائیںطالبان: قتل کے دو مجرموں کو سرعام سزائے موت خواتین کی تعلیم پر پابندی سے افغان عوام ہم سے دُور ہوئے: طالبان نائب وزیرِ خارجہبیان میں اخونزادہ کا کہنا تھا کہ طالبان حکام کو آپس میں برادرانہ تعلقات رکھیں جب کہ اختلافات اور خود غرضی سے بچنا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت اور کمیونزم کے خلاف جہاد میں شکست کے بعد آپس میں اختلافات ہوئے تھے اور اس تقسیم کی وجہ سے افغانستان میں شریعت کا نفاذ نہیں ہو سکا تھا۔
خیال رہے کہ اس بیان میں اخونزادہ نے تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے لڑکیوں اور خواتین کے لیے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے دوبارہ کھولنے سے متعلق کچھ نہیں کہا۔
اس کے علاوہ انہوں نے حالیہ غیر مصدقہ رپورٹس کا حوالہ بھی نہیں دیا جن میں کہا گیا تھا کہ افغان خواتین کو زنا کے جرم میں سنگسار کرنے کا عمل دوبارہ شروع کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ یہ سزا اس سے قبل نوئے کی دہائی کے آخر میں طالبان کے پہلے دور حکومت میں دی جاتی تھیں۔
ان کا بیان میں مزید کہنا تھا کہ امن و امان کا قیام لوگوں پر زیادہ سختیاں کر کے قائم نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی ان کے بقول سیکیورٹی شریعت اور انصاف کی فراہمی سے منسلک ہے۔
طالبان کے سربراہ کے بیان پر امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کی نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی سے منسلک اور کتاب ’ریٹرن آف طالبان‘ کے مصنف حسن عباس کا کہنا ہے کہ اخونزادہ کا بیان معقول ہے اور ان کی توجہ گروننس اور انسداد بدعنوانی کی معاملات پر ہے۔
SEE ALSO: کیا افغانستان میں طالبان کا نظامِ عدل حقیقی انصاف فراہم کر سکتا ہے؟حسن عباس کا مزید کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بیان ان کے حال ہی میں جاری کردہ آڈیو پیغام کے ذریعے پیدا ہونے والی منفی تاثر کو دور کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے خاص طور پر عوامی سزاؤں اور خواتین کے حقوق کے بارے میں ان کے اعلان کے بعد یہ بیان جاری ہوا ہے۔
ان کے بقول یہ پیغام نقصان پر قابو پانے کے لیے جاری کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ہفتے کو طالبان کے زیرِ کنٹرول سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ مشرقی لوگر صوبے میں ایک خاتون سمیت چھ افراد کو زنا کے الزام میں سر عام کوڑے مارے گئے۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔