ٹیسٹ کرکٹ اور گلابی گیند

بین الاقوامی سطح پر گلابی گیند کا پہلی بار استعمال آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان ایڈیلیڈ میں کھیلے گئے کرکٹ ٹیسٹ میچ سے ہوا تھا۔

پانچ روزہ کرکٹ میں شائقین کی دلچسپی اور اسٹیڈیمز میں ان کی تعداد بڑھانے کی کوششوں کے سلسلے میں ٹیسٹ میچوں کو بھی ڈے اینڈ نائٹ یعنی شبانہ روزینہ کھیلنے کا آغاز کر دیا گیا ہے اور ایشیا میں پہلی مرتبہ پاکستان اور ویسٹ انڈیز ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ میچ کے لیے دبئی کے میدان میں اترے ہیں۔

لیکن ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ میچ کی ایک اور خصوصیت اس میں استعمال ہونے والی گیند بھی ہے جو روایتی سرخ رنگ کی بجائے اب گلابی ہو گی۔

بین الاقوامی سطح پر گلابی گیند کا پہلی بار استعمال آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان ایڈیلیڈ میں کھیلے گئے کرکٹ ٹیسٹ میچ سے ہوا تھا۔

کئی برسوں تک مختلف سطح پر آزمائش اور جانچ کے بعد کرکٹ کے کرتا دھرتاؤں نے فلڈ لائٹ میں گلابی گیند استعمال کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ یہ دن کی روشنی اور رات کو اسٹیڈیم کی لائٹ میں یکساں طور پر واضح دکھائی دیتی ہے اور کھلاڑیوں کے سفید لباس کے ساتھ بھی موزوں ہے۔

پاکستان کا شہر سیالکوٹ کھیلوں کے سامان کی تیار کے سلسلے میں دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اسی شہر میں دہائیوں سے کرکٹ کی گیندیں بنانے سے وابستہ ایک فیکٹری کے مالک انور خواجہ نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ اب گلابی گیند کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ان کے بقول ان کی فیکٹری سالانہ 15 سے 20 ہزار گلابی گیندیں تیار کر رہی ہے اور اب اس کی تعداد میں اضافہ بھی کیا جا رہا ہے۔

انور خواجہ کا کہنا تھا کہ اس گیند کی تیاری میں بھی وہی سامان استعمال ہوتا ہے جو سرخ یا سفید گیند میں ہوتا ہے، لیکن اس نئی گیند کی رنگت کے باعث جو ان کے بقول شوخ گلابی ہے، یہ دن کو سورج اور رات کو مصنوعی روشنی میں یکساں طور پر نظر آتی ہے۔

کرکٹ کے حلقوں کا خیال ہے کہ ڈے اینڈ نائٹ اور پھر گلابی گیند کے استعمال سے ٹیسٹ کرکٹ میں ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی جیسی دلچپسی تو شاید نہ آ سکے لیکن یہ تبدیلی ایک خوش کن تاثر پیدا کرنے کا باعث بنے گی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ کرکٹ کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔