چینی سفیر کی سکیورٹی سے متعلق خط 'لیک‘ ہونے کی تحقیقات

خط میں کہا گیا تھا کہ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کا دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوچکا ہے اور اس کے بارے میں معلومات وزارتِ داخلہ کو فراہم کردی گئی ہیں۔

پاکستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ چینی سفیر کو لاحق خطرات سے متعلق وزارتِ داخلہ کو لکھے گئے خط کے ’لیک‘ ہونے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

گزشتہ ہفتے ذرائع ابلاغ میں ایک خط کا متن سامنے آیا تھا جس میں اسلام آباد میں چین کے سفارت خانے نے پاکستان کی وزارتِ داخلہ کو لکھا تھا کہ نئے سفیر یاؤ جینگ کی زندگی کو دہشت گرد تنظیم ’ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ‘ سے خطرہ ہے۔

خط میں کہا گیا تھا کہ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کا دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوچکا ہے اور اس کے بارے میں معلومات وزارتِ داخلہ کو فراہم کردی گئی ہیں۔

وزیرِ داخلہ احسن اقبال منگل کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران اس بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ ’’اگر کسی کو (خط) ملا بھی تھا تو ضابطہ اخلاق کا تقاضا ہے کہ ایسی حساس چیزوں کو میڈیا کی نظر نہ کیا جائے، جس سے کسی بھی ہمارے دوست ملک کے کسی بھی سفارت کار کو سلامتی کے خدشات لاحق ہو سکتے ہیں۔‘‘

اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے لیکن ’’دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ جاری ہے کیوں کہ ہمارے دشمن کا مکمل صفایا نہیں ہوا ہے۔‘‘

اس سے قبل پیر کی شب وزیر داخلہ احسن اقبال کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں وفاقی دارالحکومت کے حساس علاقے ریڈ زون اور ڈپلومیٹک انکلیو کی سکیورٹی بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

پاکستان کے سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ ویانا کنونشن کے تحت سفارت کاروں کی حفاظت کی ذمہ داری اُن ممالک پر ہوتی ہے جہاں وہ تعینات ہوتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ عموماً سفارت کاروں کو لاحق خطرات کے بارے میں تشویش کا اظہار کھلے عام نہیں کیا جاتا لیکن اس مرتبہ ایسی اطلاعات منظرِ عام پر آ گئی ہیں۔

’’عمومی طور پر (سفیروں) کو فراہم کردہ سکیورٹی بڑی سخت ہوتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ حکومت پاکستان کو اس کو بڑھانا چاہیے۔ کم از کم جب تک خطرہ رہتا ہے۔‘‘

تسنیم نورانی کہتے ہیں کہ اب تک سامنے آنے والی خبروں سے تو ایسے لگتا ہے کہ چین کے پاس خطرے سے متعلق ایسی اطلاعات ہوں گی جس کی بنیاد پر اُنھوں نے حکومت کو مطلع کیا ہو گا۔

چین کے سفیر کو لاحق خطرے سے متعلق سامنے آنے والی خبروں کے بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پاکستان کے وزیرِ مملکت برائے اُمورِ داخلہ طلال چوہدری نے کہا تھا کہ ’’جتنے بھی غیر ملکی ہیں اُنھیں خصوصی طور پر ایسے دہشت گرد گروپ جو کہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک مستحکم ملک نہیں ہے اور یہاں سلامتی کے مسائل ہیں تو وہ ان کو نشانہ بناتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف خبر بڑی بنتی ہے بلکہ پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچتا ہے۔‘‘

طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں چینی سفارت کاروں کے علاوہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں سے وابستہ چینی شہریوں کے تحفظ کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔

’’ہم پہلے ہی اپنے دوستوں اور بیرونِ ملک سے آئے ہوئے مہمانوں کے بارے میں بہت حساس ہیں اور اُن کی سکیورٹی کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ چین کے حکام ماضی میں پاکستان سے یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ وہ چین کے مغربی علاقے سنکیانگ میں مبینہ طور پر سرگرم کالعدم عسکری تنظیم ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ 'ای ٹی آئی ایم' کے ایغور جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کرے۔

پاکستان کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے عسکریت پسندوں کی ایک قلیل تعداد پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود تھی اور فوجی آپریشن میں اُن کے ٹھکانوں کو ختم کر دیا گیا ہے یا وہ شدت پسند پاکستان سے سے فرار ہو گئے ہیں۔