پاکستان میں بدعنوانی میں کمی آئی: ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل

پاکستان کے بارے میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں 12 درجے بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔
عالمی سطح پر بدعنوانی پر نظر رکھنے والی ایک بڑی تنظیم ’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل‘ نے اپنی تازہ سالانہ رپورٹ میں دنیا کے 177 ممالک میں بدعنوانی سے متعلق درجہ بندی کی فہرست جاری کی ہے۔

منگل کو جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2012ء کے مقابلے میں رواں سال بدعنوانی میں کمی آئی ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی درجہ بندی فہرست کے مطابق 100 پوائنٹس والے ملک کو بدعنوانی سے تقریباً پاک تصور کیا جاتا ہے جب کہ صفر پوائنٹ والے ملک کو انتہائی بدعنوان ملک سمجھا جاتا ہے۔

رواں سال کی رپورٹ میں پاکستان میں بدعنوانی میں کمی کے تناظر میں 12 درجے کی بہتری آئی۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے مشیر عادل گیلانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گزشتہ سال بدعنوانی کے اعتبار سے فہرست میں پاکستان 139 ویں نمبر تھا جب کہ اس سال یہ 127 ویں نمبر پر ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ رپورٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی کے سدباب کے لیے جو اقدامات کیے گئے ہیں اُن کے بہتر نتائج حاصل ہو رہے ہیں۔

عادل گیلانی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بدعنوانی میں کمی کے باعث سرمایہ کاروں اور کاروباری برادری کا اعتماد بھی بڑھے گا۔

’’معیشت بھی بہتر ہو گی، درجہ بندی میں بہتری کے باعث باہر سے بھی سرمایہ آئے گا۔ بدعنوانی کے باعث باہر سے کوئی بھی سرمایہ کار اس لیے نہیں آتا کہ کہیں اُن کا پیسہ (ڈوب نا) جائے۔‘‘

پاکستان میں 11 مئی کے انتخابات کے بعد مرکز اور چاروں صوبوں میں بننے والی حکومتوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ بدعنوانی کے انسداد کے لیے حقیقی کوششیں کریں گی۔

بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے وزرائے اعلٰی یہ اعلانات کر چکے ہیں کہ بدعنوان عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے گی جب کہ بہتر طرز حکمرانی کے فروغ کے لیے دیگر صوبے بھی ایسے ہی اقدامات کی یقین دہانی کرا چکے ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف بھی یہ کہتے ہیں کہ حکومت کے اداروں میں بدعنوانی برداشت نہیں کی جائے گی۔

قومی احتساب بیورو یعنی ’نیب‘ کے سابق چیئرمین فصیح بخاری نے گزشتہ سال کہا تھا کہ پاکستان میں روزانہ سات ارب روپے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں تاہم حال ہی نیب کے مقرر کیے گئے نئے چیئرمین قمر زمان چودھری کہہ چکے ہیں احتساب کا عمل بلاتفریق کیا جائے گا۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق صومالیہ، شمالی کوریا اور افغانستان دنیا کے بدعنوان ترین ممالک ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ڈنمارک اور نیوزی لینڈ 91 پوائنٹس کے ساتھ بدعنوانی سے تقریباً مبرا ممالک ہیں جن کے بعد 89 پوائنٹس کے ساتھ فن لینڈ اور سویڈن کا دوسرا نمبر آتا ہے۔

تنظیم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر رابرٹ برنگٹن کا کہنا ہے کہ بدعنوان ترین ممالک ایسے ہیں جہاں مختلف تنازعات چل ہیں۔

’’آپ کو وہاں حکومت میں شفافیت کا مکمل فقدان نظر آئے گا، خاص طور پر آپ کو پتا چلے گا احتساب بالکل بھی نہیں ہے۔ ریاست کے ادارے تحلیل ہونا شروع ہو گئے اور یہ عوام ہی ہیں جو سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
‘‘
سوڈان اور جنوبی سوڈان علیحدگی کے بعد جاری تنازعات کے باعث اس فہرست میں کم ترین پوائنٹس حاصل کرنے والے ممالک میں شامل ہیں اور ان کے ساتھ لیبیا کا شمار بھی ایسے ہی بدعنوان ممالک میں ہو رہا ہے۔

خانہ جنگی کے شکار ملک شام 2009ء کے مقابلے میں رواں سال 42 درجے تنزلی ہوئی ہے۔