سفری پابندی معاملہ، اگر کچھ ہوتا ہے تو جج کو ذمہ دار ٹھہرائیں: ٹرمپ

تقریباً 200 کمپنیوں، دو ریاستوں اور دو سابقہ امریکی وزرائے خارجہ نے سان فرانسسکو میں اپیلز کی نویں امریکی سرکٹ عدالت میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اقدام کے خلاف درخوست دی ہے، جس کے تحت صدر نے سات مسلمان ملکوں سے امی گریشن پر عبوری پابندی عائد کی ہے۔


معروف ڈیموکریٹس کے ایک گروپ نے، جن میں سابق وزیر خارجہ جان کیری اور میڈلین البرائٹ شامل ہیں، عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ پابندی کی راہ روکی جائے۔ اُنھوں نے یہ دلیل پیش کی ہے کہ یہ ’’نا معقول، غلط طور پر عائد کردہ اور مبہم‘‘ ہے۔


پابندی کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف یہ ہے کہ اس سے قومی سلامتی کو تقویت ملتی ہے۔ برعکس اس کے، اُنھوں نے دلیل یہ پیش کی ہے کہ ’’ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں محفوظ بنانا تو کجا، یہ حکم نامہ امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے نقصاندہ ہے‘‘۔


مزید یہ کہ ٹیکنالوجی کی 97 کمپنیاں، جن میں ’سلیکون ویلی‘ کے مشہور نام ایپل، فیس بک، گوگل، مائکروسافٹ اور ٹوئٹر شامل ہیں، اتوار کی شام گئے ایک درخواست دائر کی جس میں سفری پابندی کے خلاف دائر کردہ چارہ جوئی کی حمایت کی گئی ہے۔

اس سے قبل، صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر "کچھ ہوتا ہے"، تو اس کا الزام جج پر ہوگا جنہوں نے سات مسلم اکثریتی ممالک سے آنے والوں پر ان کی عائد کردہ پابندی کا راستہ روکا۔

اتوار کو صدر نے ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں امریکی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "مجھے یقین ہی نہیں آ رہا ہے کہ ایک جج ہمارے ملک کو ایسے خطرے میں ڈالے گا۔"

گزشتہ ہفتے ریاست واشنگٹن میں امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج جیمز رابرٹ نے ٹرمپ کے اس صدارتی حکم نامے پر عملدرآمد روکنے کا حکم دیا تھا جس کے تحت پناہ گزینوں اور ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن سے آنے والے پر امریکہ میں داخلے پر عارضی پابندی عائد کی گئی تھی۔

اس فیصلے کے خلاف محکمہ انصاف کی دائر کردہ درخواست کو اتوار کو کورٹ آف اپیلز نے مسترد کر دیا تھا۔

اتوار کو کی گئی ٹوئٹس میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انھوں نے محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کو حکم دیا ہے کہ وہ امریکہ میں داخل ہونے والے لوگوں کی "بہت احتیاط" کے ساتھ جانچ کریں۔ ان کے بقول عدالتوں نے "ہمارا کام بہت مشکل بنا دیا ہے۔"

صدر نے جج رابرٹ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ "جج نے ممکنہ دہشت گردوں اور دیگر ایسے افراد جن کے دل میں ہمارے بہترین مفادات کا احترام نہیں، کے لیے ہمارے ملک کو کھول دیا ہے۔ برے لوگ بہت خوش ہیں۔"

سان فرانسسکو کی اپیلز کورٹ نے وفاقی حکام اور ریاستوں کو اس ضمن میں مزید دلائل پیر کی دوپہر تک جمع کروانے کا کہا تھا کہ آیا سفری پابندی کو غیر آئینی قرار دیا جائے یا اسے بحال کر دیا جائے۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ معاملہ عدالت عظمیٰ تک جائے گا۔