ایران جوہری سمجھوتے میں سقم ہیں، تجدید نہیں کی جا سکتی: ٹرمپ

ٹرمپ نے ایران کے بارے میں ’’نیا سخت انداز اپنانے‘‘ پر زور دیا۔ تاہم، یہ نہیں کہا کہ معاہدے کو ’’فوری طور پر یکسر‘‘ ختم کیا جا رہا ہے

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ’’ایران دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا سرکردہ ملک ہے‘‘، جس کے ساتھ، بقول اُن کے،’’ 2015ء میں کیے جانے والے سمجھوتے میں شدید بنیادی نوعیت کے سقم ہیں؛ جس کی توثیق نہیں کی جا سکتی‘‘۔

اُنھوں نے یہ بات جمعے کے روز وائٹ ہاؤس سے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق براہِ راست خطاب میں کہی۔

ٹرمپ نے ایران کے بارے میں ’’نیا سخت انداز اپنانے‘‘ پر بھی زور دیا۔ تاہم، یہ نہیں کہا کہ معاہدے کو ’’فوری طور پر یکسر‘‘ ختم کیا جا رہا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ وہ ’’امریکی محکمہٴ خزانہ کو حکم دیں گے کہ وہ ایران کے پاسدارانِ انقلاب پر نئی تعزیرات عائد کرے، جو دہشت گردی کا سرپرست ہے‘‘۔

ایران کی جانب سے جوہری اور بلیسٹک میزائل پروگرام جاری رکھنے اور مشرق وسطیٰ میں شدت پسند گروپوں کی حمایت کرنے پر، اپنے پالیسی خطاب میں، صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ زیادہ محاذ آرائی والے مؤقف اپنانے کا تفصیل سے اعلان کیا۔

ٹرمپ نے کہا کہ اُن کا مقصد ’’اِس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ایران کبھی جوہری ہتھیار حاصل نہ کرسکے‘‘۔

ٹرمپ نے کہا کہ ’’ہم ایسی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتے جس کا انجام واضح طور پر مزید تشدد اور دہشت گردی کی صورت میں سامنے آئے گا; اور اس بات کا حقیقی خطرہ موجود ہے کہ ایران جوہری ہتھیار کے حصول کی جانب قدم بڑھاتا رہے گا‘‘۔

ایران کو جوہری بم تشکیل دینے سے روکنے کی غرض سے، ٹرمپ نے امریکہ کو سجھوتے سے الگ نہیں کیا۔ تاہم، اُنھوں نے امریکی کانگریس سے مطالبہ کیا کہ وہ 60 روز کے اندر اس بات کا فیصلہ کرے آیا ایران کے خلاف پھر سے معاشی تعزیرات لاگو کی جانی چاہئیں، جنھیں معاہدے کے تحت اٹھایا گیا تھا۔

صدر نے کہا کہ نئی حکمت عملی کے تحت امریکہ کے اتحادیوں کی مدد سے ایران کی اختیار کردہ ’’عدم استحکام پھیلانے کی سرگرمیاں‘‘ اور ’’خطے میں دہشت گردی کی نوعیت کی درپردہ لڑائیوں کی حمایت‘‘ کے معاملے سے نبردآزما ہونا شامل ہے۔

نئی حکمت عملی میں ایران کی جانب سے دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے مالی وسائل فراہم کرنے کا توڑ کرنے کے لیے اضافی تعزیرات عائد کی جائیں گی؛ اس میں ایران کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی تشکیل کے پروگرام پر نگاہ رکھنا شامل ہے جس سے ایران مشرق وسطیٰ کے خطے کے لیے خطرے کا باعث ہے۔

ٹرمپ نے کہا کہ ہم ایرانی حکومت کو جوہری ہتھیار کے حصول کے راستے پر نہیں چلنے دیں گے‘‘۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایران دہشت گردی کی سرپرستی کرتا ہے۔ اس ضمن میں اُنھوں نے ایران کی جانب سے حزب اللہ، حماس اور القاعدہ کو مدد فراہم کرنے اور مضبوط کرنے کا ذکر کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کی مدد کے علاوہ ایران نے عراق اور افغانستان میں شدت پسندی، دہشت گردی اور فرقہ واریت کو فروغ دیا ہے۔

ساتھ ہی اُنھوں نے کہا کہ ایرانی حکومت پر شمالی کوریا کی مالی مدد کرنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ایران کی حکومت 1979ء کے شدت پسند اسلامی انقلاب کا ایک تسلسل ہے، جو مذہبی انتہا پسندی اور عدم رواداری کی راہ پر گامزن کے۔

صدر نے کہا کہ پچھلی امریکی انتظامیہ نے 2015ء میں ایسا جوہری سمجھوتا کیا جو ’’بدترین معاہدہ ہے‘‘ جس میں یہ انتظار کیے بغیر کہ ایران اس پر فی الواقع عمل درآمد کرے، فوری طور پر ایران پر عائد تعزیرات اٹھا لی گئیں اور ایران کو 1.7 ارب ڈالر کی نقدی خصوصی جہاز بھر کر پہنچائی گئی۔

دوسری طرف، اُنھوں نے کہا کہ ایران نے بین الاقوامی معائنہ کاروں کو ایران کی جوہری تنصیبات، خاص طور پر فوجی تنصیبات، تک رسائی فراہم نہیں کی۔

اُنھوں نے کہا کہ ایران علاقائی اور بین الاقوامی امن اور سکیورٹی کے لیے مستقل خطرے کا باعث بنا ہوا ہے۔

اس سے قبل، وائٹ ہاؤس نے الزام لگایا کہ ایران سمجھوتے میں موجود سقم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کے نگراں اقوام متحدہ کے ادارے کو فوجی مقامات پر قائم جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اختیار کردہ اِس رویے کے بارے میں وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ’’اِسے برداشت نہیں کیا جائے گا‘‘۔ اب ٹرمپ انتظامیہ معاہدے پر ’’سختی سے نفاذ‘‘ پر زور دے رہی ہے۔

برعکس اس کے، ایران سے متعلق ٹرمپ کی پالیسی ’’ایران کی حکومت کے عدم استحکام پھیلانے کے اثر و رسوخ کو کم کرنے، اور اُس کے جارحانہ انداز کو ختم کرنے‘‘ پر زور دیتی ہے، خاص طور پر، اس زاویے نظر سے کہ ایران دہشت گردی اور شدت پسندی کی حمایت کرتا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے حکام کا کہنا ہے کہ نئی پالیسی کا ہدف یہ ہے کہ ’’ایران کی حکومت کے لیے وہ تمام راہیں بند کی جائیں جن سے وہ جوہری ہتھیار تشکیل دے سکتا ہے‘‘۔