ترکی اور آزربائیجان کے درمیان تعاون میں اضافہ

ترکی اور آزربائیجان کے حریف، آرمینیا کے درمیان مصالحت کی کوششوں کی ناکامی کے بعد، ترکی اور اس کے ہمسایہ ملک آزربائیجان کے درمیان سفارتی اور اقتصادی تعاون میں اضافہ ہو رہا ہے ۔

ترکی کے اعلیٰ وزیر ناگورنو۔کاراباخ کے متنازع علاقے کی آزربائیجان کو واپسی کی کوششوں میں اپنی مدد پیش کرنے کے لیے آزربائیجان کے دورے کرتے رہے ہیں۔ آرمینی اکثریت والے اس علاقے نے 1988 میں آزادی کا اعلان کر دیا تھا جس کے نتیجے میں آرمینیا اور آزربائیجان کے درمیان جنگ چھڑ گئی، جو چھ سال جاری رہی۔ اس جنگ میں 35,000 جانیں ضائع ہوئیں ۔ یہ جنگ 1994 میں ختم ہوئی اور اس کے بعد بین الاقوامی برادری کی امن قائم کرنے کی بار بار کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔

گذشتہ مہینے استنبول میں خجوجالے نامی گاؤں میں603 آزریوں کی ہلاکت کی یاد منائی گئی ۔ اس موقع پر ترکی کے وزیرِ داخلہ ادریس نعیم ساحین نے بڑی جذباتی تقریر کی ۔ انھوں نے کہا’’جب تک ترک قوم زندہ ہے، ان کے خون کے جواب لیا جائے گا۔‘‘

اس موقع پر ہزاروں ترک قوم پرست اور آزربائیجانی موجود تھے جنھوں نے ایک قوم، دو ملک کے الفاظ لکھے ہوئے کتبے اٹھا رکھے تھے ۔ اس موقع پر آرمینیا کے خلاف سخت جذبات دیکھنے میں آئے ۔ استنبول کی Bahcesehir University میں سیاسیات کے ماہر، چنگیز اختر کہتے ہیں کہ اس موقع پر ترکی کے وزیرِ داخلہ کی موجودگی، اور انھوں نے اپنی تقریر میں جو زبان استعمال کی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی کی خارجہ پالیسی میں اہم تبدیلی آ رہی ہے ۔

’’یہ ایک اہم لمحہ ہے ۔ یہ انتہائی اہم تبدیلی ہے ۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ گذشتہ دس برسوں میں ترکی میں اس قسم کی کوئی چیز ہوئی ہو۔ آزربائیجان ترکی کی سیاسی زندگی میں بھر پور طریقے سے واپس آ گیا ہے ۔ ترکی نے آرمینیا کے بارے میں اپنی پالیسیاں پوری طرح آزربائیجان کے تابع کر دی ہیں۔‘‘

اکتوبر 2009 میں جب ترکی نے آرمینیا کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جن کا مقصد سفارتی تعلقات کی بحالی اور ترکی کی طرف سے آرمینیا کی اقتصادی ناکہ بندی خاتمہ تھا، تو آزربائیجان سخت ناراض ہوا۔

ترکی کے ایک سابق سینیئر سفارتکار سینان اولجین جو آج کل استنبول میں سنٹر فار اکنامکس اینڈ فارن پالیسی اسٹیڈیز کے سربراہ ہیں، کہتے ہیں کہ ترکی کا خیال تھا کہ آرمینیا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے سے، وہ آرمینیا اور آزربائیجان کے درمیان تنازعے کے تصفیے میں مدد دے سکے گا۔ لیکن اولجین کہتے ہیں کہ آزربائیجان کی مخالفت کی وجہ سے، ترکی وزیرِ اعظم رجب طیب اردوان نے آرمینیا کے ساتھ مصالحت کی کوششوں کو ختم کر دیا۔

’’وزیرِ اعظم نے آزربائیجان کا انتخاب کیا کیوں کہ ترکی میں قوم پرست بہت مضبوط ہیں، کیونکہ ترکی میں روایتی طور پر حب الوطنی کے جذبات بہت مضبوط ہیں۔ بر سرِ اقتدار پارٹی کو عوامی حمایت حاصل ہے، اور عوام میں آزربائیجان کی حمایت بہت زیادہ ہے۔‘‘

اس سال کے شروع میں، امریکی محکمۂ خارجہ کی رپورٹ میں ترکی اور آرمینیا کے درمیان تعلقات میں تعطل پر مسٹر اردوان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔ لیکن آزربائیجان نے ترکی کو اپنی حمایت کا بڑا اچھا معاوضہ ادا کیا ہے ۔ ترکی میں توانائی کی مانگ بہت زیادہ ہے اور گذشتہ چند مہینوں میں، آزربائیجان نے ترکی کو گیس کی فراہمی کے کئی سودوں پر دستخط کیے ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک اور معاہدے کے تحت ترکی وسیع تر علاقے میں آْزر بائیجان کی توانائی تقسیم کرے گا ۔ ترکی چاہتا ہے کہ وہ علاقے میں توانائی کی فراہمی کا مرکز بن جائے ۔

لیکن ترکی کی وزارتِ خارجہ کے سابق عہدے دار مورت بلہان نے انتباہ کیا ہے کہ بڑھتے ہوئے تعلقات کے باوجود، آزربائیجان ترکی پر پوری طرح اعتماد نہیں کرتا۔

’’یہ تعلقات باہم اعتماد پر مبنی نہیں ہیں اور اس کی وجہ صرف آرمینیا کا سوال نہیں ہے ۔ آزربائیجان کے لوگ ترکی کو شک و شبہے کی نظر سے دیکھتے ہیں کیوں کہ ترکی میں سنی مسلمان آباد ہیں جب کہ آزربائیجانی شیعہ ہیں ۔ لیکن بعض وجوہ کی بنا پر ان کے مفادات مشترک ہو گئے ہیں۔ ان میں اصل اہمیت گیس کے پراجیکٹس کی ہے۔ اس کے علاوہ ریلوے کا پراجیکٹ ہے جس میں آرمینیا کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا ۔ یہ منصوبہ ابھی زیرِ غور ہے ۔‘‘

لیکن آزربائیجان کو یہ بھی پتہ ہوگا کہ ترکی کے لیے آرمینیا کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنا اہم ہے ۔ ترکی سمجھتا ہے کہ آرمینیا کے ساتھ مصالحت اس قسم کے مطالبات کی روک تھام کے لیے انتہائی اہم ہے کہ ترکی یہ بات تسلیم کرے کہ پہلی عالمی جنگ کے دوران آرمینین اقلیت کا بڑی تعداد میں قتل نسل کشی تھی ۔ ترکی اس الزام کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ ہلاکتیں خانہ جنگی کے دوران ہوئیں۔

سابق ترک سفارتکار اولجین کہتے ہیں کہ امکان یہی ہے کہ یہ تنازعہ روز بروز بڑھتا جائے گا۔’’2015 کا سال قریب آ رہا ہے جو ان المناک واقعا ت کی سو ویں برسی ہے ۔ لہٰذا ، ترکی کو اس معاملے کا جائزہ لینا ہے اور یہ طے کرنا ہے کہ اس کے اپنے مفاد میں کیا ہے ۔ لیکن عملی طور پر صورت حال یہ ہے کہ آزربائیجان اپنے ووٹ سے ترکی کی پالیسی کو بلاک کر سکتا ہے۔‘‘

گذشتہ مہینے، نسل کشی کے تنازع پر ترکی اور فرانس کے درمیان ایک سفارتی طوفان اٹھ کھڑا ہوا جب فرانس کی پارلیمینٹ نے ایک قانون پاس کیا جس کے تحت آرمینیا کے لوگوں کے قتلِ عام کو نسل کشی کہنے سے انکار کرنا جرم ہو گا ۔ امریکی سینیٹ میں ایک بار پھر یہ کوششیں ہو رہی ہیں کہ آرمینیا کے لوگوں کے قتل کو نسل کشی کہا جائے ۔اس سے سفارتی سطح پر ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوگا ۔ لیکن ترکی کے سامنے سوال یہ ہے کہ آزربائیجان کو ناراض کیے بغیر، آرمینیا کے ساتھ رابطے کس طرح قائم کیے جائیں ۔ توقع ہے کہ آنے والے دنوں میں اس چیلنج پر توجہ دینا ایک بڑی سفارتی ترجیح ہوگی ۔