ترک صدر کی توہین کا الزام, معروف خاتون صحافی زیرِ حراست

فائل فوٹو

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کے لیے توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے کے الزام پر معروف ترک صحافی صدف کباش کو حراست میں لیا گیا ہے۔

خاتون صحافی کے وکیل کا کہنا ہے کہ عدالت نے صدف کباش کو مقدمے کی سماعت کے دوران ہی جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق صحافی صدف کباش نے ٹیلی ویژن شو کے دوران ترک صدر کو نشانہ بناتے ہوئے ایک محاورے کا استعمال کیا جس میں انہوں نے صدر کو بھینسے سے تشبیہ دی تھی۔ بعدازاں خاتون صحافی نے یہ بیان اپنے سوشل میڈیا پر بھی شیئر کیا۔

صدف نے اپوزیشن کے حمایت یافتہ ٹی وی چینل کے ایک شو میں محاورے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'جب بھینسا محل میں داخل ہو جائے تو وہ بادشاہ نہیں بن جاتا۔"

ترپن سالہ خاتون صحافی صدف کباش تین دہائیوں پر مشتمل اپنے صحافتی کریئر میں کئی مشہور پروگراموں کی میزبانی کر چکی ہیں۔ انہیں پولیس نے ہفتے کی صبح استنبول میں ان کے گھر سے حراست میں لیا۔

حکومتی شخصیات کی جانب سے صدف کباش کے بیان کی مذمت کی جا رہی ہے جب کہ حزبِِ اختلاف کے رہنما ان کی حمایت کر رہے ہیں۔

حکمراں جماعت کے رہنما نعمان قرتلمش نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا کہ "عوام کے منتخب کردہ صدر کے لیے توہین آمیز الفاظ استعمال کرنا پوری قوم پر حملہ کرنے کے برابر ہے۔"

حزبِ اختلاف کی رہنما مرال آکسنر نے صدف کباش کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی ذہنیت سے جلد آزادی ملے گی اور ترکی میں دوباہ انصاف کا بول بالا ہو گا۔

ترک وزارتِ انصاف کے اعداد و شمار کے مطابق 2014 کے بعد سے صدر ایردوان کے خلاف توہین آمیر الفاظ استعمال کرنے کے الزام میں 35 ہزار 500 سے زائد مقدمات چلائے جا چکے ہیں جس کے نتیجے میں تقریباً 13 ہزار افراد کو سزائیں سنائی گئی ہیں۔

ترکی کے قانون کے مطابق صدر کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے والے کو زیادہ سے زیادہ چار برس تک کی قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ترکی کو اس قانون کو تبدیل کرنے پر بین الاقوامی برادری کی جانب سے دباؤ کا بھی سامنا رہا ہے۔

اکتوبر میں یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس نے کہا تھا کہ جب کسی شخص کو 2017 کے توہین کے قانون کے تحت حراست میں لیا جاتا ہے تو یہ اظہارِ ازادی رائے کی خلاف ورزی ہے۔

اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے "ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔