جرمن سیاست دانوں کی تنقید پر ترکی کا شدید رد عمل

ترکی کے صدارتی ترجمان ابراہیم کالین نے پیر کے روز ایک ٹویٹ میں اس اُمید کا اظہار کیا کہ ترکی اور جرمنی کے تعلقات کو خراب کرنے والا یہ پریشان کن ماحول جلد ختم ہو جائے گا جو بقول اُن کے ’’تنگ نظر سیاسی نقطہ نظر‘‘ کے نتیجے میں سامنے آ رہا ہے۔

ترکی کے حکام نے جرمن چانسلر انجلا مرکل اور اُن کے انتخابی حریف مارٹن شلز کی جانب سے ترکی پر کی جانے والی تنقید پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ جرمنی کے ان دونوں رہنماؤں نے اتوار کے روز ایک ٹیلی ویژن مباحثے میں ترکی پر شدید تنقید کی تھی۔

ترکی کے صدارتی ترجمان ابراہیم کالین نے پیر کے روز ایک ٹویٹ میں اس اُمید کا اظہار کیا کہ ترکی اور جرمنی کے تعلقات کو خراب کرنے والا یہ پریشان کن ماحول جلد ختم ہو جائے گا جو بقول اُن کے ’’تنگ نظر سیاسی نقطہ نظر‘‘ کے نتیجے میں سامنے آ رہا ہے۔

انتخابی مباحثے کے دوران انجلا مرکل نے کہا تھا کہ ترکی کو یورپین یونین کی رکنیت نہیں دی جانی چاہئیے جبکہ اُن کے انتخابی حریف مارٹن شلز نے ترکی کے بارے میں انجلا مرکل کے مؤقف کو کمزور قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ اُنہیں اس بارے میں سخت مؤقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

کالین نے مباحثے کو مسترد کرتے ہوئے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ترکی کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جرمنی کے انتخابات میں کس سیاسی جماعت کو کامیابی حاصل ہوتی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہاں کس قسم کی سوچ موجود ہے۔ ترجمان نے کہا کہ مباحثے کے دوران دونوں اُمیدواروں میں سے کسی نے بھی امتیازی سلوک یا نسل پرستی کے رجحان میں اضافے کے بارے میں بات نہیں کی اور اس سے اشارہ ملتا ہے کہ جرمن پالیسی کس سمت کی طرف جا رہی ہے۔

ترجمان نے جرمنی پر الزام لگایا کہ وہ ترکی کے دشمنوں کو پناہ دے رہا ہے۔ ترکی میں گزشتہ برس حکومت کا تختہ اُلٹنے کی ناکام کوشش کے بعد ترکی کے 250 سے زائد فوجی اہلکاروں اور سفارتکاروں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواست کی تھی۔

علاوہ ازیں ترکی جرمنی پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ جرمنی میں باغیوں کے گروپ PKK کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہا ہے جسے ترکی، یورپین یونین اور امریکہ نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔

دوسری جانب جرمنی نے ترکی میں فوجی بغاوت کی کوشش کے بعد مخالفوں کے خلاف کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا جس میں 10 جرمن شہریوں کو حراست میں لے لیا گیا جن میں معروف صحافی ڈینیز یوکل بھی شامل تھے۔ اُنہیں گزشتہ 200 دنوں سے بغیر کسی الزام کے زیر حراست رکھا گیا ہے۔ جرمنی کی طرف سے احتجاج کے باوجود جمعہ کے روز دو مزید جرمن شہریوں کو ترکی کے ایک ہوائی اڈے سے گرفتار کر لیا گیا۔ جرمن حکام اس گرفتاری کو سیاسی قرار دے رہے ہیں۔

ترکی کی حکومت نے ان گرفتاریوں پر کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ تاہم جرمن وزارت خارجہ کے مطابق اُن میں سے ایک کو پیر کے روز رہا کر دیا گیا ہے۔

ویب سائیٹ ’ال مانیٹر‘ کے سیاسی کالم نگار سیمی آئیڈز کا کہنا ہے کہ ترکی جرمنی پر دباؤ مزید بڑھانے کی کوشش کرے گا کیونکہ اس وقت بظاہر انجلا مرکل کی پوزیشن قدرے کمزور دکھائی دے رہی ہے۔