شمالی وزیرستان واپس نہ جانے والے قبائلی تشویش میں مبتلا

فائل فوٹو

حکام کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے فوجی آپریشن کے باعث تین سال قبل نقل مکانی کرنے والوں میں سے 80 فیصد سے زائد کی اپنے گھروں کو واپسی ہو چکی ہے لیکن مقامی قبائل ان 20 فیصد باقی رہ جانے والوں سے متعلق تشویش کا شکار ہیں جو تاحال اپنے علاقوں کو واپس نہیں جا سکے ہیں۔

شدید گرم موسم اور ناکافی امداد کے باعث خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں اور عارضی کیمپوں میں مقیم ان قبائلیوں کے لیے زندگی دشوار ہو چلی ہے اور ان کی طرح سے اپنے گھروں کو جلد واپسی کے مطالبات میں بھی روز بروز شدت آتی جا رہی ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 104382 رجسٹرڈ بے گھر خاندانوں میں سے 86886 کی اپنے گھروں کو واپسی ہو چکی ہے۔

شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی راہنما ملک غلام نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سرکاری اعدادوشمار کی تصدیق تو کی لیکن ان کا کہنا تھا کہ زیادہ فکرمندی اس بات کی ہے کہ باقی رہ جانے والوں کے لیے اب عارضی کیمپوں میں حالات دشوار ہوتے جا رہے ہیں۔

’’اب تین سال ہونے والے ہیں لیکن یہ لوگ ابھی تک اپنے علاقوں کو واپس نہیں جا سکے ہیں۔ یہاں بہت گرمی ہے ان کے بچوں کو دانے نکل آئے ہیں۔ یہاں ان کی گزر بسر کا یہاں کوئی مناسب انتظام نہیں ہے یہ کس طرح اپنے بچوں کو پیٹ پالیں۔ـ

حکام یہ کہتے ہیں کہ ابھی تک جن علاقوں میں بحالی و آبادکاری کا کام مکمل نہیں ہوا وہاں سے نقل مکانی کرنے والوں کی تاحال واپسی نہیں ہو سکی ہے اور جیسے ہی یہ علاقے رہائش کے قابل ہو جائیں گے ان افراد کو بھی واپس بھیج دیا جائے گا۔

جون 2014ء میں فوجی آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد ہزاروں خاندان نقل مکانی کر کے سرحد پار افغان صوبے خوست چلے گئے تھے جن کی واپسی کے لیے گزشتہ سال سے مرحلہ وار کام شروع کیا گیا تھا۔

لیکن اب تک تقریباً ڈیڑھ ہزار خاندان ہی خوست سے واپس آئے ہیں جب کہ واپسی کا یہ عمل رمضان کے مہینے میں معطل کر دیا گیا ہے۔

باراں کیمپ میں واپسی کے عمل سے وابستہ عہدیدار شاہ دراز خان وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ ہفتے تقریباً 1200 خاندان کو واپس ان کے علاقوں میں بھیجا گیا ہے اور رمضان کے بعد قبائلیوں کی واپسی کا عمل دوبارہ شروع کیا جائے گا۔