یورپ شامی پناہ گزینوں کے لیے دروازے کھولے، اقوامِ متحدہ

فائل

اقوامِ متحدہ کے مطابق یورپی ممالک نے بہت کم شامی باشندوں کو پناہ دی ہے جب کہ شام کے پڑوسی ملک پناہ گزینوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔

اقوامِ متحدہ نے یورپی ممالک پر زور دیا ہے کہ اسے شام کی خانہ جنگی کے باعث بے گھر ہونے والے افراد کے لیے اپنے دروازے کھولنے چاہئیں۔

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک نے "بہت کم" شامی باشندوں کو پناہ دی ہے۔

ایجنسی کے مطابق یورپی ممالک کے برعکس شام کے پڑوسی ملک پناہ گزینوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور ان پر پناہ گزینوں کا مزید دباؤ ڈالنا اب ممکن نہیں رہا۔

'یو این ایچ سی آر' کی ترجمان ملیسا فلیمنگ نے جمعے کو جنیوا میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتےہوئے کہا کہ شامی پناہ گزینوں کی تعداد 30 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے جو تقریباً تمام کے تمام شام کے پڑوسی ملکوں – لبنان، اردن اور ترکی - میں مقیم ہیں۔

ترجمان کے مطابق شامی پناہ گزینوں کی ایک محدود تعداد عراق اور مصر میں بھی ہے لیکن پڑوسی ملکوں کی گنجائش پوری ہونے کےبعد اب شامی پناہ گزینوں نے دوسرے علاقوں کا رخ کرنا شروع کردیا ہے۔

عالمی ادارے کی ترجمان نے بتایا کہ شام سے ہجرت کرنے والے افراد کی بڑی تعداد اب یورپی ملکوں میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اقوامِ متحدہ کی خواہش ہے کہ یورپ ان پناہ گزینوں کو قبول کرے۔

'یو این ایچ سی آر' کے مطابق شام میں گزشتہ سوا تین برس سے جاری خانہ جنگی کے باوجود اب تک بہت کم شامی باشندوں نے پناہ کے لیے یورپ کا رخ کیا ہے۔

عالمی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق یورپی حکومتوں کو اب تک شامی باشندوں کی جانب سے پناہ کی ایک لاکھ 23 ہزار درخواستیں موصول ہوئی ہیں جن میں سے بیشتر جرمنی اور سوئیڈن میں دائر کی گئی ہیں۔

لیکن عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ یورپ میں پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند شامی باشندوں کی تعداد ان درخواستوں سے بھی کہیں کم ہے کیوں کہ کئی افراد نے بیک وقت کئی یورپی ملکوں کو درخواست دے رکھی ہے۔

پریس کانفرنس کے دوران ملیسا فلیمنگ نے صحافیوں کو بتایا کہ شام کےپڑوسی ملکوں میں موجود 29 لاکھ پناہ گزینوں کے مقابلے میں یورپ جانے کی کوشش کرنے والے پناہ گزینوں کی تعداد بہت کم اور پناہ گزینوں کی کل تعداد کا بمشکل چار فی صد ہے۔

ترجمان نے کہا کہ یورپ کی کل آبادی 67 کروڑ ہے اور وہاں صرف ایک لاکھ شامی باشندے پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے برعکس لبنان کی کل آبادی 44 لاکھ ہے اور وہاں پناہ گزین شامی باشندوں کی تعداد 11 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ شام سے ہجرت کرنے والوں کی تعداد میں مزید کئی لاکھ افراد کا اضافہ ہوسکتا ہےکیوں کہ جنگ اور تشدد کے باعث 65 لاکھ شامی باشندے بے گھر ہونے کے بعد اندرونِ ملک پناہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔

گو کہ یورپی یونین شام میں بے گھر ہونے والے افراد کی امداد میں پیش پیش رہی ہے لیکن بیشتر یورپی ممالک شامی پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے نہ صرف ہچکچاتے رہے ہیں بلکہ کئی مغربی ملکوں کی جانب سے اپنے ہاں پہنچنے والے پناہ گزینوں کو سرحد عبور کرنے سے روکنے کے واقعات بھی پیش آچکے ہیں۔

'یو این ایچ سی آر' کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 17 یورپی ملکوں نے اب تک صرف 31 ہزار 800 شامی پناہ گزینوں کو قبول کرنے کی پیش کش کی ہے۔

لیکن عالمی ادارے کا مطالبہ ہے کہ یورپی ملک کم از کم ایک لاکھ پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھائیں۔